نمازمیں ہاتھ کیسے اورکہاں باندهنا سنت ہے ؟

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه وسلم

نمازمیں ہاتهہ کیسے اورکہاں باندهنا سنت ہے ؟؟
یاد رہے کہ نمازمیں دایاں ہاتهہ بائیں ہاتهہ پرباندهنا مسنون ہے ، اس بارے میں کئ روایات ہیں مثلا بخاری ومسلم کی روایت میں یہی تصریح موجود ہے

فقد روى البخاري في صحيحه :عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى وفي رواية لمسلم : ثم وضع يده اليمنى على ظهر يده اليسرى . اهـ

نماز میں ہاتهہ کہاں باندهے جائیں ؟؟
امام شافعی رحمه الله کا مذهب یہ ہے کہ سینے کے نیچے اورناف کے اوپرہاتهہ باندهنا چائیے ، اورامام شافعی رحمه الله سے ایک روایت ناف کے نیچے ہاتهہ باندهنے کی بهی ہے ، اورحنفیہ اورحنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ ناف کے نیچے باندهنا چائیے ، اورمالکیه کا معتمد ومشہورمذهب ارسال ہے یعنی دونوں ہاتهوں کو کهلا چهوڑنا ہے
احناف کا موقف دلائل کی روشنی میں
احناف کے نزدیک مردوں کے لیئے ناف کے نیچے ہاتهہ باندهنا مسنون ہے
اوراس باب میں چند دلائل درج ذیل ہیں
حضرت علقمة بن وائل اپنے والد وائل بن حجر رضی الله عنه سے روایت کرتے ہیں کہ انهوں نے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کو دیکها آپ نمازمیں اپنا دایاں ہاتهہ بائیں ہاتهہ پرناف کے نیچے رکهتے تهے

حَدَّثَنَا: وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ.
المصنف ابن أبـي شـيبة كتاب الصلاة
باب : وضع اليمين على الشمال
قلت : أما ((وكيع)) فهو معروف، و((موسى بن عمير)) هو ثقة من السابعة، و((علقمة بن وائل)) هو صدوق من رجال مسلم، و((أبيه)) هو من الصحابة وهو أيضًا من رجال مسلم.

حضرت إبراهيم ( تـابعـي ) فرماتے ہیں کہ نمازی نماز میں اپنا دایاں ہاتهہ بائیں ہاتهہ پرناف کے نیچے رکهے

حدثنا وكيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم قال : يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة .
المصنف ابن أبـي شـيبة ، آثارالسنن وقال إسناده صحيح
حدثنا أبو معاوية عن عبد الرحمن بن إسحاق عن زياد بن زيد السوائي عن أبي جحيفة عن علي
قال : من سنة الصلاة وضع الأيدي على الأيدي تحت السرر

حضرت علي رضی الله عنه سے روایت ہے کہ انهوں نے فرمایا کہ نماز کی سنت میں سے ہے کہ دایاں ہاتهہ بائیں ہاتهہ پرناف کے نیچے رکهے

المصنف ابن أبـي شـيبة ، ومسـند أحـمد
حدثنا يزيد بن هارون قال : أخبرنا حجاج بن حسان قال : سمعت أبا مجلز أو سألته قال : قلت كيف يصنع ؟ قال : يضع باطن كف يمينه على ظاهر كف شماله ويجعلها أسفل من السرة

حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں کہ میں نے أبو مجلز ( تـابعـي ) سے سنا یا میں نے اس سے پوچها کہ نماز میں ہاتهہ کس طرح رکهے ؟ تو انهوں نے فرمایا کہ اپنے دائیں ہاتهہ کی ہتهیلی کے اندر والے حصہ کو بائیں ہاتهہ کی ہتهیلی کے اوپروالے حصے پر رکهے اور دونوں ہاتهہ ناف کے نیچے باندهے

المصنف ابن أبـي شـيبة
حدثنا محمد بن محبوب ثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحاق عن زياد بن زيد عن أبي جحيفة أن عليا رضي الله عنه قال السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة

حضرت أبي جحيفه سے روایت ہے کہ حضرت علی رضي الله عنه نے فرمایا کہ نماز میں ہتهیلی پر ہتهیلی ناف کے نیچے رکهنا مسنون ہے

سـنن أبـي داود ، ومسند أحمد ، والبيهقـي والدارقطنـي وغيرهم
حــاصل كـلام

اس باب میں مزید آثار بهی مفصل کتب میں موجود ہیں لیکن میں اسی قدرپراکتفاء کرتا ہوں ، یاد رہے کہ اس مسئلہ میں بهی اختلاف راجح ومَرجُوح کا ہے سيدنا الإمـام الأعظم أبـي حنيفـة رحمه الله تعـالى اوران کے اصحاب ناف کے نیچے ہاتهہ باندهنے کو تعظیم کے زیاده لائق وقریب سمجهتے ہیں اوراس باب میں وارد شده روایات وآثار میں سے ناف کے نیچے ہاتهہ باندهنے والی روایات وآثار کوترجیح دیتے ہیں
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ مسأله بهی اختلافی ہے إجماعی مسأله نہیں ہے لہذا دیگرکئ امورکی طرح یہاں بهی شریعت نے وسعت رکهی ہے ولله الحمد
لهذا اگرکوئ جاہل اس مسأله میں کسی ایک طرف کو ہی لازم و واجب کوکہے اورباقی کو غلط کہے توایسے جاہل آدمی کی بات پرکان نہیں دهرنا چائیے

وقال الترمذي في ( سننه ) : والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم : يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم . ونحو هذا قال الإمام أحمد وغیره

امام ترمذی رحمه الله فرماتے ہیں کہ
بعض اهل علم کی رائے ہے کہ دونوں ہاتهہ ناف کے اوپر رکهے اوربعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکهے اوران کے نزدیک یہ سب جائزہے . یعنی صحابه وتابعین وغیرهم أهل العلم کے نزدیک یہ سب جائزہے
ابن المنذر رحمه الله نے اپنی کتاب (( الأوسط )) میں اس مسئلہ کے بارے علماء اسلام کے اقوال وآراء ذکرکرنے بعد کسی کا قول نقل کیا کہ نمازمیں ہاتهہ رکهنے کی جگہ کے بارے میں نبي صلى الله عليه وسلم سے کوئ حدیث ( صحیح ) ثابت نہیں ہے لہذا نمازی کواختیارہے کہ ناف کے نیچے ہاتهہ رکهے یا اوپر رکهے الخ

وقال ابن المنذر في ” الأوسط “: واختلفوا في المكان الذي توضع عليه اليد من السرة؛ فقالت طائفة: تكونان فوق السرَّة، وروي عن علي أنه وضعهما على صدره، وروي عن سعيد بن جبير أنه قال: فوق السرَّة، وقال أحمد بن حنبل: فوق السرَّة قليلاً، وإن كانت تحت السرَّة فلا بأس. وقال آخرون وضع الأيدي على الأيدي تحت السرَّة، روي هذا القول عن علي بن أبي طالب، وأبي هريرة، وإبراهيم النخعي، وأبي مجلز…، وبه قال سفيان الثوري وإسحاق. وقال إسحاق: تحت السرَّة أقوى في الحديث، وأقرب إلى التواضع. وقال قائل: ليس في المكان الذي يضع عليه اليد خبر يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، فإن شاء وضعهما تحت السرَّة، وإن شاء فوقها.
الأوسـط 3/94
والله تعـالـى أعـلم

رفع یدین کی نماز میں حیثیت اور اس پر احناف کا موقف دلائل کی روشنی میں

نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین (دونوں ہاتهہ اٹهانا) بالاتفاق مستحب ہے ، الإمام النووي رحمه الله یہی فرماتے ہیں

قال الإمام النووي في شرح صحيح مسلم : أجمعت الأمة على استحباب رفع اليدين عند تكبيرة الإحرام .

لیکن نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین کے حکم میں اختلاف ہے اس بارے میں دو قول ہیں۔
1 = نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین واجب ہے ، امام الأوزاعي اور امام الحميدي یعنی شيخ البخاري اور امام داود الظاهري اوران کے بعض أصحاب اوربقول امام حاکم امام ابن خزيمة اور أحمد بن سيار بن أيوب شوافع میں سے اور امام ابن حزم کا مذهب یہی ہے
2 = نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام اعظم أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام مالك ، اورامام الشافعي ، اورامام أحمد اورامام أبو عبيد ، اورامام أبي ثور ، اورامام إسحاق ، وابن المنذر ، وغيرهم کثیر کا یہی مذهب ہے

تفصیل دیکهیئے : شرح صحيح مسلم للنووي ، فتح الباري ، نيل الأوطار، بداية المجتهد ، الاستذكار والتمهيد ، وغیرذالک

لیکن رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ هدی کے مابین اختلاف ہے اور دوراول یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئ ہیں لہذا جس مجتهد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کوزیاده بہتر وراجح سمجها اس کو اختیارکیا اورکسی بهی مجتهد نے دوسرے مجتهد کے عمل واجتهاد کو باطل وغلط نہیں کہا اور یہی حال ان مجتهدین کرام کا دیگراختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتهہ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ گذشتہ سطور میں گذر چکا کہ امام شافعی رحمه الله امام مالک رحمه الله کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتهادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتی کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ وشاگرد کا اجتهاد مختلف ہے امام شافعی رحمه الله رفع یدین کے قائل ہیں اورامام مالک رحمه الله رفع یدین کے قائل نہیں ہیں وغیرذالک اور دوراول سے لے کر آخرتک یہی حالت رہی
حتی کہ ہمارے اس آخر زمانہ میں ہندوستان کے اندر کچهہ نفوس پرمشتمل ایک جماعت نمودار ہوئ جس نے بڑے زور وشور سے ان اختلافی مسائل کو لے کرعوام الناس کو ان ائمہ هدی اورخصوصا امام اعظم ابوحنیفہ وعلماء احناف کے منهج وطریق سے ہٹانے کا بهرپور سلسلہ شروع کیا اورمختلف حیلوں بہانوں سے عوام کو یہ باور کرایا اورآج تک کر رہے ہیں کہ احناف کی فقہ اوران کا عمل حدیث رسول کے بالکل مخالف ہے ان کا مشہورطریقہ واردات اس بارے میں یہ ہوتا ہے کہ مثلا ایک اختلافی مسئلہ میں وه روایت عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کے ساتهہ احناف بوجوه استدلال نہیں کرتے اوراس مسئلہ میں احناف کی مستدل روایات کو جہالت یا ضد وتعصب کی وجہ سے پیش نہیں کرتے مثلا رفع یدین کا مسئلہ لے لیں ایک عام آدمی کے سامنے حدیث پڑهتے ہیں کہ دیکهو حدیث میں ہے کہ حضور صلی الله وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرتے تهے اور حنفی اس حدیث پرعمل نہیں کرتے لہذا ان کو چهوڑ دو اور اهل حدیث جماعت میں شامل ہوجاوجن کا مقصد صرف اور صرف حدیث رسول پرعمل کرنا ہے لہذا عموما ایک عام ناواقف شخص اسی وسوسہ کو قبول کرکے ٹهوکر کها لیتا ہے
جیسا کہ معلوم ہے کہ مسئلہ رفع یدین سے متعلق علماء کرام کی مفصل ومختصر بہت ساری کتب موجود ہیں جن میں اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث وکلام موجود ہے لہذا میں اس مختصر مقالہ میں صرف ائمہ اربعہ کی آراء اور ائمہ احناف کے کچهہ دلائل ذکرکروں گا تاکہ ایک عام آدمی کو معلوم ہوجائے حنفی تکبیرتحریمہ کےعلاوه رفع یدین کیوں نہیں کرتے اور ان کے پاس کیا دلائل ہیں

رفع یدین کے بارے مذاهب اربعہ کی تصریحات

1 = احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہے
فتاوی شامی میں ہے

قوله إلا في سبع ) أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخ

رد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها

2 = مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولی ہے ، مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے ،

قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ) المدونة الكبرى للإمام مالك ص 107 – دار الفكر بيروت

امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں . امام مالك رحمه الله کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا الخ
یاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہے
علامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتهدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں

وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك ” الی ان قال ” والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخ

بداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی

علامہ عبد الرحمن الجزيري نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے

المالكية قالوا: رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ الفقه على المذاهب الاربعة ‘ لعبد الرحمن الجزيري ‘ الجزء الاول
كتاب الصلاة باب رفع اليدين

3 = شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے

قال سألت الشافعي: أين ترفع الأيدي في الصلاة؟ قال: يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله ” سمع الله لمن حمده ” حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخ

كتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاة

قال الشافعي ) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو مأموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه

كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة

4 = حنابله کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے
مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه

كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي ، كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاة

رفع یدین کے بارے احناف کا موقف دلائل کی روشنی میں

جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہے ذیل میں احناف کے چند دلائل پیش خدمت ہیں

1 = باب ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة

حدثنا هناد حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة قال وفي الباب عن البراء بن عازب : قال أبو عيسى حديث ابن مسعود حديث حسن : وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين: وهو قول سفيان الثوري وأهل الكوفة

سنن الترمذي ، كتاب الصلاة ، صفة الصلاة

امام ترمذی رحمه الله اپنی سند کے ساتهہ حضرت علقمة سے روایت کرتے ہیں وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز نہ پڑهاوں ؟ پهر حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے نماز پڑهی پس پہلی مرتبہ ( یعنی تکبیرتحریمه ) کے علاوه رفع یدین نہیں کیا
امام ترمذی رحمه الله فرماتے ہیں ابن مسعود رضی الله عنه کی یہ حدیث حسن ہے اور بہت سارے أهل العلم صحابہ کرام اورتابعین کا بهی یہی قول ہے یعنی صرف تکبیرتحریمه کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں ، اور سفيان الثوري اورأهل الكوفة کا بهی یہی قول ہے
اورامام ترمذی رحمه الله نے یہ تصریح بهی کی کہ ابن مسعود رضی الله عنه کی اس حدیث کے علاوه حضرت البراء بن عازب رضی الله عنه سے بهی ترک رفع یدین کی روایت مَروی ہے

2 = عن علقمة قال : قال عبدالله بن مسعود ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة

رواه أبوداود في سننه ورجاله رجال الصحيح

حضرت علقمة سے روایت ہے وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز نہ پڑهاوں ؟ پهر حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے نماز پڑهی پس پہلی مرتبہ ( یعنی تکبیرتحریمه ) کے علاوه رفع یدین نہیں کیا

3 = حدثنا الحسن بن علي ثنا معاوية وخالد بن عمرو وأبو حذيفة قالوا ثنا سفيان بإسناده بهذا قال فرفع يديه في أول مرة وقال بعضهم مرة واحدة

سنن أبي داود

امام ابوداود فرماتے ہیں کہ اوپرمذکور سند ( عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة ) سے حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه کی روایت کے الفاظ فلم يرفع يديه إلا مرة کے بجائے فرفع يديه في أول مرة اوربعض نے فرفع يديه مرة واحدة کے الفاظ بیان کیئے ہیں
یاد رہے کہ ان سب الفاظ کا معنی ومفہوم ایک ہی ہے یعنی یعنی تکبیرتحریمه کے وقت ایک مرتبہ رفع یدین کیا

4 = أخبرنا محمود بن غيلان المروزي ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله أنه قال ألا أصلي بكم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة

سنن النسائي

حضرت علقمة سے روایت ہے وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز نہ پڑهاوں ؟ پهر حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے نماز پڑهی پس پہلی مرتبہ ( یعنی تکبیرتحریمه ) کے علاوه رفع یدین نہیں کیا

5 = وروى الإمام النسائـي بسند آخرعن علقمة عن عبد الله أنه قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يُعـد

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Meks Ads