امام الاعظم ابى حنيفہ رحمه الله اوران کے ناقدین خطیب بغدادی کی کتاب تاریخ بغداد پرایک تحقیقی نظر

حافظ أبي بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي کی کتاب تاريخ بغداد چوده جلدوں میں ہے ، اس کتاب میں فقهاء ومحدثين وأرباب علوم وأئمہ دین ودیگرمشاہیر زمانہ کے تقریبا (7831 ) تراجم وسوانح واحوال بیان کیئے گئے ہیں ، اوریہ کتاب خطيب البغدادي کی أهم اوربڑی مشہورکتاب ہے ، کتاب میں تمام علماء بغداد کی تاریخ بیان کرتے ہیں ، مقدمة الكتاب میں وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ تاریخ ان لوگوں پرمشتمل ہوگی
تسمية الخلفاء والأشراف والكبراء والقضاة والفقهاء والمحدثين والقراء والزهاد والصلحاء والمتأدبين والشعراء من أهل مدينة السلام الذين ولدوا بها وبسواها من البلدان ونزلوها وذكر من انتقل عنها ومات ببلدة غيرها ومن كان بالنواحي القريبة منها ومن قدمها من غير أهلها
یعنی اس سلسلہ میں أهل مدينة السلام یعنی (بغداد) کے خلفاء ، واشراف ، وكبراء ، وقضاة ، وفقهاء ، ومحدثين ، وقراء، وزهاد ، وصلحاء ، ومتأدبين ، وشعراء کا تذکره ہوگا ، اورأهل مدينة السلام سے وه مراد ہیں جو وہاں پیدا ہوئے یا کسی دوسرے مقام سے آکر وہاں سکونت پذیر ہوئے ، اور وه جو بغداد کوچهوڑکر دوسری جگہ فوت ہوئے ، اوروه جواس کے قرب وجوارمیں ساکن تهے یا وہاں آکر رہے ، ان کی کنیت ، ان کا حسب نسب ، مشہور واقعات ، تاریخ وفات وغیره بقدر اپنی علم ومعرفت جمع کیئے ہیں الخ
یہ تو کتاب ” تاريخ بغداد ” سے متعلق بات تهی ، امام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله سے متعلق خطيب البغدادي رحمہ الله جو کچهہ ذکرکیا ہے ، اصل بات میں نے وہی عرض کرنی ہے، خطيب البغدادي رحمہ الله نے تقریبا ( 44 ) چوالیس صفحات پرامام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله کے فضائل ومناقب لکهے ہیں ، پهراس کے بعد وه اقوال لکهے ہیں جو امام صاحب کے خلاف منقول ہیں ، اوران اقوال کو نقل کرنے سے پہلے خطيب البغدادي رحمہ الله یہ تمہید بیان کی ہے۔
قال الخطيب وقد سقنا عن أيوب السختياني وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة وأبي بكر بن عياش وغيرهم من الأئمة أخبارا كثيرة ٹضمن تقريظ أبي حنيفة والمدح له والثناء عليه والمحفوظ ثم نقله الحديث عن الأئمة المتقدمين وهؤلاء المذكورون منهم في أبي حنيفة خلاف ذلك وكلامهم فيه كثير لأمور شنيعة حفظت عليه متعلق بعضها بأصول الديانات وبعضها بالفروع نحن ذاكروها بمشيئة الله ومعتذرون إلى من وقف عليها وكره سماعها بأن أبا حنيفة عندنا مع جلالة قدره أسوة غيره من العلماء الذين دونا ذكرهم في هذا الكتاب وأوردنا أخبارهم وحكينا أقوال الناس فيهم على تباينها والله الموفق للصواب

:خطيب البغدادي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ

ہم نے أيوب السختياني اورسفيان الثوري اورسفيان بن عيينة اورأبي بكر بن عياش وغيرهم أئمہ کرام سے أبي حنيفة رحمہ الله کی مدح وثناء وتعریف میں بیان کردئیے ہیں ، لیکن ناقلین حدیث کے یہاں ائمہ مذکورین کے ایسے اقوال بهی محفوظ ہیں جو مذکوره بالا بیان (یعنی امام الأعظم کے فضائل ومناقب ) کے خلاف ہیں ، اور انهوں نے اس بارے میں بہت کلام کیا ہے ، اوراس کلام کی وجہ وه امور شنیعہ ہیں جوان کے متعلق محفوظ کی گئ ہیں ، ان میں سے بعض تواصول دین سے متعلق ہیں اوربعض فروع سے متعلق ہیں ، ہم ان شاء الله ان کا ذکرکریں گے ، جولوگ اس کو (یعنی امام الأعظم کے مخالف اقوال) سننا ناپسند کریں توہم ان سے معذرت کرتے ہیں ، اس لیئے کہ ہم أبي حنيفة رحمہ الله کے جلالت قدر ( بلند مرتبہ) کے قائل ہیں ، لیکن ان کواس بارے میں دوسرے علماء کی طرح سمجهتے ہیں کہ ان (أبي حنيفة رحمہ الله) کے خلاف جوباتیں بیان کی گئ ہیں ان کوبهی ہم بیان کردیں جیسا کہ ہم نے دوسرے علماء کے ذکرمیں کیا ہے ۰ اهــ
یہ تمہید لکهنے کے بعد خطيب البغدادي رحمہ الله نے پهر وه اقوال نقل کیئے ہیں جو امام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله کے خلاف بیان کیئے گئے ہیں اور یہ یاد رہے کہ یہ مخالف اقوال اور جَرحیں سب غیرمفسراورغیرمُبین السبب ہیں یعنی ان تمام جَرحوں کی کوئ وجہ اورسبب اورتفصیل وتشریح بیان نہیں کی گئ ہے بس صرف فلاں فلاں سے نقل کی گئ ہیں ، اسی طرح خود خطيب البغدادي رحمہ الله نے بهی ان مخالف اقوال اور جَرحوں کے ناقلین اور راویوں کی عدالت کی توثیق نہیں کی ہے ، لہذا یہ دونوں باتیں اہم ہیں یعنی جَرحیں سب غیرمُفسَّراورغیرمُبَینُ السَبَب ہیں اورخود خطیب نے ان کے راویوں کی توثیق نہیں کی ہے۔

امام الأعظم رحمہ الله پرکی گئ ان جَرحَوں پرایک تحقیقی نظر

اس بارے میں ان تمام جَرحَوں پرتحقیقی نظرڈالی جائے توبحث کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ، نقلی اور عقلی ، نقلی بحث تو یہ ہے کہ خود خطیب بغدادی ان مخالف اقوال اورجَرحَوں صحت کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیئے تیارنہیں ہیں ، لہذا یہ مخالف اقوال اورجَرحَیں نقل کرنے سے پہلے خطیب بغدادی نے جوتمہید لکهی جو اوپر مذکور ہوئ وه تمہید اس بات کی شاہد ہے کہ خطیب بغدادی نے جَرحَیں نقل کرنے سے پہلے ومعتذرون إلى من وقف عليها وكره سماعها کہ کر معذرت کی ہے اورکہا کہ چونکہ یہ جَرحَیں امام الأعظم رحمہ الله کے خلاف روایت کی گئ ہیں اورتمام علماء کے متعلق وه مخالف وموافق امور نقل کرتے ہیں ، اس لیئے ان جَرحَوں کو بهی نقل کریں گے ، اوراس کے ساتهہ ساتهہ امام الأعظم رحمہ الله کی جلالت قدر وعلوشان کا اعلان واقراربهی کرتے ہیں بأن أبا حنيفة عندنا مع جلالة قدره أسوة ، اب ظاہر ہے کہ اگر ان مخالف اقوال اورجَرحَوں میں سے فروع یا عقائد سے متعلق کوئ بهی جَرَح یقینی طور پر خطیب بغدادی کے نزدیک ثابت وصحیح ہوتی تو امام الأعظم رحمہ الله کی جلالت قدر وعلوشان کا اعلان واقرار کیوں کرتے ؟؟
اورپهر مزید یہ کہ خطیب بغدادی یہ مخالف اقوال اورجَرحَیں کے نقل کرنے کے بعد جابجا ان کے اوپر تردیدی اقوال بهی بیان کرتے ہیں حالانکہ جَرَح کے باب میں تعدیل کا موقع نہیں ہوتا کیونکہ تعدیل ومناقب وفضائل کا باب تو ختم ہوچکا ہے ، مثلا خلق قرآن ( قرآن کے مخلوق) کا عقیده کی روایت نقل کرنے کے بعد خطیب بغدادی نے امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا یہ قول اس کی تردید میں نقل کیا لم يصح عندنا أن أبا حنيفة كان يقول بخلق القرآن ، یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے کہ أبوحنیفہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تهے ، اسی طرح ایک جگہ امام احمد بن حنبل رحمہ الله کی طرف جوجَرَح امام الأعظم رحمہ الله کے کذاب ہونے کی منسوب ہے اس کونقل کرنے کے بعد خطیب بغدادی نے لکها کہ يحي ابن مُعين (إمامُ الجرح والتعديل) سے پوچها گیا کہ آیا أبوحنیفہ ثـِقـَه ہیں ؟؟ تو يحي ابن مُعين (إمامُ الجرح والتعديل) نے جواب دیا قـال نعـم ثـقــة ثـقــة ، ہاں ثـِقـَه ہیں ثـِقـَه ہیں، اور دوسری اہم بات یہ کہ امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے اپنی مُسند میں امام الأعظم رحمہ الله کی حدیث بهی نقل کی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے اپنی مُسند میں بے اصل احادیث کونقل نہیں کیا اس لیئے اگر وه کذاب سمجهتے تو ان کی حدیث کیوں نقل کرتے ؟؟ (حدیث ملاحظہ کریں مسند بریده ج 5 ، ص 35 ) لہذا خطیب بغدادی کے اس اندازپرغورکرنے کے بعد یہ بات أظهرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ خطیب بغدادی نے امام الأعظم رحمہ الله کے مخالف اقوال وجَرحیں نقل کرنے میں محض اپنا مُؤرخَـانہ فرض ادا کیا ہے وه خود ان کے قائل نہیں تهے یا یہ کہیئے کہ وه خود ان کی رائے وفیصلہ نہیں ہے جیسا کہ خطیب بغدادی کی مذکوره بالا تمہید وطرزبیان سے واضح ہے۔اسی طرح علماء امت نے امام الأعظم رحمہ الله پرطعن وجرح کرنے والوں پرمستقل کتب کی صورت میں مُدلل ومفصل رد وجواب بهی لکها ہے ، اورخود خطیب بغدادی کی نقل کرده ان جَرحوں کی رد میں مستقل کتب لکهی گئ ہیں ، مثلا جوکتب میری نظرسے گذری ہیں وه درج ذیل ہیں

خطیب بغدادی کی رد میں لکهی گئ علماء امت کی مستقل کتابیں

الكتب المؤلفة في الرد على الخطيب البغدادي

مقدمة كتاب جامع مسانيد الإمام الأعظم ، للخطيب الخوارزمي
ألسهم المصيب في الرد على الخطيب ، لابن الجوزي
ألسهم المصيب في كبد الخطيب ، للملك المعظّم أبي المظفر عيسى بن سيف الدين أبي بكر بن ايوب الحنفي
ألإنتصار لإمام ائمة الأمصار ، لسبط ابن الجوزي
تنوير الصحيفة بمناقب الإمام أبي حنيفة ، لابن عبدالهادي الحنبلي
السهم المصيب في نحر الخطيب ، للإمام السيوطي
تأنيب الخطيب على ما ساقه في ترجمة أبي حنيفة من الأكاذيب ، للعلامـة محمد زاهد الكوثري ، رحمهم الله جميعـــا۔

خطیب بغدادی کی نقل کرده جرحوں کی رد وجواب میں مذکوره کتابوں کے لکهنے والے سب کے حنفی نہیں ہیں ، بلکہ امام سيوطي شافعي المسلک ہیں ، اورخود خطیب بغدادی بهی شافعي المسلک ہیں ، اور امام ابن الجوزي حنبلي المسلک ہیں ، ، اسی طرح علامہ ابن عبدالهادي حنبلي المسلک ہیں ، ، توان اقوال اورجرحوں کے جهوٹ وباطل ہونے کی اس سے بڑهہ کرکیا شہادت چائیے کہ خود اپنے مسلک کے علماء نے اوراسی طرح احناف کے علاوه دیگر مسالک کے علماء نے مستقل کتب لکهہ کر خطیب بغدادی کی منقولہ جرحوں کو باطل وبے اصل قراردیا
اسی طرح کتاب مكانة الإمام أبي حنيفة بين المحدثين. للشيخ محمد قاسم عبده الحارثي، اور علامہ خوارزمي کی کتاب جامع مسانيد الإمام الأعظم کی مقدمہ میں اورامام ابن حجر الهيتمي رحمه الله کی کتاب الخيرات الحسان میں ، اور کتاب عقود الجمان في مناقب الإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان ، میں اور اسی طرح العلامة المحدث الناقد المحقق البارع الفقيه الشيخ محمد عبد الرشيد النعماني رحمہ الله کی کتاب مكانة الإمام أبي حنيفة في الحديث: میں بهی ان تمام جرحوں کا کافی وشافی رد وجواب موجود ہے ، اوربالخصوص الشيخ العلامة المحدث المحقق عبدالفتاح أبوغدة رحمه الله کی تمام تحقیقات اس بارے میں لاجواب ہیں

حاصل كلام

امام الأعظم أبوحنيفه رحمه الله کے جوفضائل ومناقب واوصاف خطیب بغدادی نے بیان کیئے ہیں ، ان میں سب سے بڑا شرف ومرتبہ تو آپ کی تابعیت کا ہے ، اس کے بعد کمال درجہ عقل وفہم وذہانت وفطانت کے ساتهہ ساتهہ تمام علوم وفنون میں تبحر امام الأعظم أبوحنيفه رحمه الله کے خاص اوصاف ہیں ، خود خطیب بغدادی نے امام الأعظم کی تیزفہمی وباریک بینی وکمال عقل وفہم کے بیان میں مستقل باب قائم کیا ، اسی طرح امام الأعظم کا تجارت وکاروبار بهی تها تو اس سلسلہ میں حُسن معاملہ ، امانت ودیانت ، بہترین تاجرانہ اوصاف وغیره بیان کرنے کے لیئے بهی خطیب بغدادی نے حُسن معاملہ کے بیان میں مستقل باب قائم کیا ، اسی طرح امام الأعظم کی عبادت وریاضت و ورع اور شب بیداری ، وتلاوت قرآن کی کثرت ، وعلم وفضل وفقاہت ، اورحق پراستقامت وپختگی ، وغیره اوصاف وخصائص بیان کرنے کے لیئے بهی خطیب بغدادی نے مستقل ابواب قائم کیئے ہیں ، توایسے جامعُ الصفات وکثیرُالمناقب شخص کے ساتهہ کسی کی طرف سے تعصب وحسد کا ہونا کوئ بعید بات نہیں ہے ،بلکہ دیگرائمہ اسلام کے ساتهہ بهی یہی ہوا ہے
اوربقول علامہ ابن عبدالبَر رحمہ الله کہ امام عبدالله ابن المبارک رحمہ الله سے پوچها گیا کہ فلاں شخص ابوحنیفہ رحمہ الله پراعتراض کرتا ہے ، تو امام عبدالله ابن المبارک رحمہ الله یہ شعر پڑها

حسدوك ان رأوك فضلك الله ، بما فضلت به النجباء

لوگوں نے یہ دیکهہ کرتجهہ سے حسد کیا کہ الله تعالی نے تجهہ کو فضیلت ومرتبہ دیا جو کہ شرفاء کو دیا جاتا ہے
اسی طرح مسائل شرعیہ میں امام الأعظم کی تحقیق اوراجتہاد بهی بعض معاصرین کی فہم سے بالا ترثابت ہوا تو فہم کی نارسائ اختلاف کا باعث ہوئ اورپهراس اختلاف نے جرح کا رنگ اختیار کردیا ، اورپهر اختلاف اجتہاد کی بنیاد پرجرح ائمہ جرح وتعدیل کے یہاں نامقبول ہے ، اسی طرح حسد ومذهبی تعصب وغیره امورمیں بهی جرح نامقبول ہوتی ہے ، اور امام الأعظم کے خلاف جرحیں بهی تقریبا سب اسی قبیل سے ہیں۔ اورسب سے بڑهہ کر یہ کہ امام محمد رحمہ الله سے لے کر علامہ ابن عابدین شامی رحمہ الله تک ہزاروں کبارحنفی علماء کی بےشمار کتب وتصانیف فروع وعقائد میں موجود ہیں ، ان کتب کی بنیاد پر دیکها جائے کہ جو غلط عقائد ومسائل امام الأعظم کی طرف منسوب کیئے گئے وه کہاں ہیں؟
آج بهی بے شمار احناف اہل اسلام پوری دنیا میں موجود ہیں ان میں سے کوئ بهی خلق قرآن ، ارجاء ، وغیره غلط عقائد ومسائل کا قائل نہیں ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام الأعظم پر جرح وطعن کی بنیاد یا تو غلط فہمی ہے ، یا حسد وتعصب ، اورظاہر ہے ان دونوں بنیادوں پر جوعمارت قائم ہوگی تو وه کبهی دیرپا نہیں ہوسکتی ، چنانچہ یہی ہوا سُوء فہم اورحسد وتعصب کے غُبار چهَٹ جانے کے بعد أصـول حديث اور عـلم رجال وعلم جرح وتعـديل کے أئمہ نے امام الأعظم کے خلاف کی گئ جرحَوں کو بالاتفاق بے اصل وغیرمقبول وباطل قراردیا۔

أعد ذكر نعمان لنا إن ذكره * هو المسك ما كررته يتضوع
نحن قوم ذنوبنا للأعادي *** أخذوها بغيبة وانتقاد
وأخذنا طاعاتهم بازدراء *** وعتو في حقنا وعناد
كيف لا نرتقي عليهم ونعلو *** ونُرى كل ساعة في ازدياد
وهم العاملون خيرا لنا إن *** عملوا، لانتهاك حق العباد
وهم الغاسلون للذنب عنا *** مثل بالوعة لنفي فساد
ولهم كل ساعةٍ حربً شركٍ *** واعتراض على عطاء الجواد
ولنا صبرُ ذي الكمال عليهم *** ولنا بالدعاء ثواب جهاد
خلهم يا أخا المودة فينا *** يطعنوا إن الله بالمرصاد

حنفی بڑے گستاخ ہیں جواپنی کتاب ” هدایہ ” کو قرآن کے برابر جانتے ہیں

وسوسه = حنفی بڑے گستاخ ہیں جواپنی کتاب ” هدایہ ” کو قرآن کے برابر جانتے ہیں ۰جواب = یہ وسوسہ بهی فرقہ جدید نام نہاداهل حدیث کے جہلاء نے کافی مشہورکیا هے ، اوراپنی کتب ورسائل میں اس وسوسہ کو برابرلکهتے چلے جارهے ہیں ، اورعوام الناس کوبهی گمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ سناتے اورپڑهاتے ہیں ،
اس وسوسہ کے استعمال کا طریقہ عام طور پراس طرح ہوتا هے کہ پہلے عوام کوباور کراتے ہیں کہ دیکهو یہ حنفی کتنے گستاخ ہیں کہ اپنی فقہ کی کتاب ” هدایہ ” کے بارے میں یہ نظریہ رکهتے ہیں کہ یہ بالکل قرآن کی طرح هے ،
اور وه شعر سناتے ہیں جو ” هدایہ ” کے بارے میں مشہور ہے ، حکیم صادق سیالکوٹی نےایک کتاب “سبیل الرسول ” لکهی ، جس میں فقہ حنفی کے خلاف بہتان طرازی وتہمت بازی وکذب وخیانت کے عجیب کرتب دکهائے، اسی کتاب “سبیل الرسول ” میں حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ ، جس طرح قرآن کے بعد اصح الکتب صحیح بخاری ومسلم ہے ، اسی طرح احناف میں هدایہ کا درجہ هے ، هدایہ میں لکها هے ان الهداية كالقرآن
کہ هدایہ مثل قرآن کے هے ۰ ( سبیل الرسول ص 228
اب حکیم صاحب نے تو یہ بات لکهہ دی لیکن هدایہ میں کہاں لکها هے ؟ کون سی جلد میں لکها هے ؟ کون سے صفحہ پرلکها هے ؟ کچهہ پتہ نہیں کہاں لکها هے ، اس لیئے حکیم صاحب نے بهی کوئ صفحہ وجلد کی نشاندہی نہیں کی کیونکہ فقہ حنفی یا احناف کے خلاف کچهہ لکهنے بولنے کے لیئے سچ وجهوٹ غلط وصحیح میں کوئ امتیازضروری نہیں ہے ، بلکہ جو جیسا بهی کسی نے لکهہ دیا یا بول دیا سب بسروچشم قبول ہے ، اوران کو بهی پتہ هے کہ اس قسم کے جهوٹ کو جن لوگوں پر بیچنا هے ، وه سب بهی مجہول بہ جہل مرکب ہیں ، کون پوچهے گا کہ هدایہ کی اصل کتاب وصفحہ دکهاو، بس آنکهیں بند کرگے بات مان لیں گے اورپهراس بات کوادہرادہر اڑاتے رہیں گے ، اوراپنے زعم میں بہت خوش ہوں گے کہ ہم نے بڑا کمال کردیا ، اس فرقہ جدید میں شامل عوام کا یہی حال هے ، الله تعالی صحیح سمجهہ دے ،
لہذا هم یہ بصد ادب کہتے ہیں کہ کوئ بهی نام نہاد اهل حدیث ہمیں یہ عبارت هدایہ میں دکهلا دے ، یہ عبارت کہاں ہے صفحہ وجلد کا حوالہ دیں ؟؟
اور حکیم صاحب نے یہ بهی لکها کہ ( قرآن کے بعد اصح الکتب صحیح بخاری ومسلم ہے ) اب یہ کہ کر تقلید کی شاہراه پراتر گئے ، کیونکہ حکیم صاحب اور اس کی فرقہ کا اصول یہ ہے کہ صرف اطیعوا الله واطیعوا الرسول ، اب ہمیں یہ پوچهنے کا حق هےکہ الله ورسول نے بخاری ومسلم کو اصح الکتب بعد القرآن کہاں فرمایا ہے ؟ کسی ضعیف حدیث کا حوالہ بهی دیا جائے تو وه بهی منظور ہے ، الله تعالی عوام مسلمانوں کو صحیح سمجهہ دے اور ان وساوس سے محفوظ رکهے ۰
فرقہ جدید نام اهل حدیث کے ایک مولوی داود خان امرتسری اپنے رسالہ (المسح علی الجوربین ) میں ” هدایہ ” کے بارے میں لکها کہ
یہ حوالہ اس مقدس کتاب کا ہے جسے غالی حنفی قرآن پاک کے برابرجانتے ہیں ، الهداية كالقرآن قد نسخت … ما صنفوا قبلها في الشرح من كتب ہدایہ قرآن پاک کی طرح ہے ، اس نے شریعت کی سابقہ کتابوں کو منسوخ کردیا هے ( العیاذبالله) کیا اب بهی هدایہ شریف کوماننے سے انکارہوسکتا هے ، دیده باید ( صفحہ 15 ) اس وسوسہ کو میں نے ان کے کئ رسائل وکتیبات میں پڑها هے ، اوران کی زبانی کئ مرتبہ سنا ہے ، کذب وفریب وخیانت آج کل فرقہ جدید کے ابناء میں بکثرت سرایت کیئے ہوئے ہیں ، اب پہلی بات تو یہ هے کہ کوئ حنفی بهی هدایہ کو قرآن کے برابر کہنا تو درکنار یہ خیال تک بهی نہیں لاسکتا ، هدایہ تو هدایہ قرآن تو مرتبہ ودرجہ میں حدیث سے بهی پہلے ہے ، لہذا ایک تویہ صریح جهوٹ وبہتان ہوگیا احناف کے اوپر ، لیکن یا توفرقہ جدید نام اهل حدیث کے علمبرداروں کو کبهی جهوٹ وبہتان وتہمت بازی کی مذمت وشناعت میں وارد احادیث مبارکہ پڑهنے کا اتفاق نہیں ہوا یا پهران کا مقصد اپنے نام اهل حدیث سے فقط یہ هے کہ چند فروعی اختلافی مسائل میں کچهہ احادیث یاد کرلیں ، بس اسی کا نام عمل بالحدیث هے ، فوا اسفاه
اور دوسرا اس شعر کا ترجمہ بهی پورا نہیں کیا ، مکمل ترجمہ اس طرح هے کہ
بے شک هدایہ نے ان کتابوں سے بے نیازکردیا جن کو فقہاء وعلماء نے اس سے قبل تصنیف وتالیف کیا ، جیسے قرآن نے پہلی کتابوں کو منسوخ کرکے ان سے بے نیازکردیا ۰
نام نہاداهل حدیث صاحب نے اس شعر میں موجود لفظ ( صنفوا ) کا ترجمہ اڑادیا
صنفوا ، تصنیف سے ہے ، اسی طرح اس شعر میں ( ألفوا ) کا لفظ بهی ملتا هے ،
اب قرآن مجید تو کسی تصنیف وتالیف نہیں هے بلکہ قرآن وحی الہی مُنزل من الله هے ، تو معلوم هوا کہ شعر میں جو ( صنفوا ) هے کا لفظ یہ صاف بتارها هے کہ مراد اس سے مراد ” هدایہ ” کی برتری کا اظہار هے دیگر کتب فقہ پر کیونکہ کتب فقہ سب تصنیفات وتالیفات ہیں ، اورقرآن کسی کی تصنیف نہیں بلکہ وحی الہی هے ، قرآن کی برابری یا ہرگزمراد نہیں هے ۰
اورجہاں تک تعلق هے کتاب ” هداية ” کے مرتبہ ومقام کا تواهل علم خوب جانتے ہیں ،الله تعالی نے اس کتاب کوعظیم مقبولیت سے نوازا ، عالم اسلام کا کوئ علمی مکتبہ ایسا نہیں جہاں ” هداية ” نہ هو ، أئمة كبار فقهاء ومحدثين ومفسرین ومحققین علماء امت نے اس عظیم کتاب سے فیض ونفع حاصل کیا ، اورشروع دن سے لے کر آج تک مقبول ومحمود هے ، سینکڑوں کی تعداد میں علماء امت نے اس کے شروحات وحواشی لکهے ، ذیل میں اس عظیم کتاب کی چند شروحات کا تذکره کروں گا جو علماء اسلام نے لکهی ہیں ، باقی کتاب ” هداية ” سے متعلق تفصیلی بحث کا یہ موقع نہیں هے ، صرف ایک جهلک آپ درج ذیل کتب کودیکهیں جو اس عظیم کتاب کی شرح وتشریح میں لکهے گئے ہیں جو بذات خود ایک بہت بڑا علمی خزانہ هے ، صرف ان کتابوں کو ہی جمع کرلیاجائے توایک بڑا کتب خانہ تیارہوجائے ۰

ھدایہ کے شروع وحواشیی

    1. البناية في شرح الهداية : بدر الدين محمود بن أحمد بن موسى أبو محمد العيني المصري ‏ت: 855 هـ ،
    2. التوشيح : سراج الدين عمر بن اسحاق الغزنوي ت : 773 هـ ( قال ابن عابدين في حاشيته ‏‏: 2/483 وفي بعض النسخ التشريح ، وبعضها الترشيح ، والمشهور التوشيح )‏
    3. الدراية شرح الهداية : معين الدين الهروي بن عبدالله محمد بن مبارك شاه ت : 954 هـ ‏وهو منلا مسكين شارح الكنز
    4. شرح الهداية : أحمد بن سليمان بن كمال باشا ، ولكنه لم يكتمل كما ذكر ابن عابدين في ‏مقدمة حاشيته 1/104‏
    5. شرح الهداية : قاضي القضاة شمس الدين محمد بن عثمان بن أبي الحسن المعروف ‏بالحريري ، ت : 728 هـ ، ذكره ابن عابدين في رسالة رسم المفتي ‏
    6. العناية : للمحقق أكمل الدين محمد بن محمود بن أحمد البابرتي ت : 786 هـ وهو من أفضل ‏شروح الهداية ، قال عنه حاجي خليفة ( وقد أحسن فيه وأجاد وهو شرح جليل معتبر في ‏البلاد الرومية ) ، وقد وصفه اللكنوي بأنه إمام محقق مدقق متبحر حافظ ضابط لم تر ‏الأعين في وقته مثله )
    7. غاية البيان ونادرة الأقران : أمير كاتب بن أمير عمر بن أمير غازي الاتقاني ت : 758 هـ ‏اعتنى فيه بتحرير المذهب مع الاستدلال والترجيح ، وقد وصفه ابن حجر بأنه شرح حافل ‏‏، كما نعته القرشي بأنه شرح نفيس يتسم بالطول والإتقان
    8. الغاية شرح الهداية : الشهير بغاية السروجي : أحمد بن ابراهيم بن عبد الغني ت : 710 هـ ‏وهذا الشرح لم يتم بل وصل فيه إلى باب الإيمان .‏
    9. فتح القدير : كمال الدين بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام ت : 861 هـ ، ‏ألفه عند تدريسه للهداية ، وكان قد قرأها على وجه الإتقان والتحقيق على قارىء الهداية ‏سراج الدين عمر بن علي الكناني ، (وسبب تلقيبه بهذا أنه قرأ الهداية على البابرتي ست ‏عشرة مرة ) وصل فيه إلى كتاب الوكالة ، وأتمه من بعده قاضي زاده في تكملته نتائج ‏الأفكار .وهو من أمتن الشروح وأبرعها
    10. الفوائد الحميدية : للعلامة علي بن محمد بن علي حميد الدين الرامشي الضرير ت :666 هـ
      ‏11.الكفاية شرح الهداية : جلال الدين الخوارزمي الكرلاني ، من علماء القرن الثامن
    11. الكفاية شرح الهداية : جلال الدين الخوارزمي الكرلاني ، من علماء القرن الثامن
    12. معراج الدراية إلى شرح الهداية : قوام الدين محمد بن محمد بن أحمد البخاري الكاكي ت ‏‏: 749 هـ ، وله عيون المذاهب ‏
    13. النهاية شرح الهداية : الحسين بن علي بن حجاج بن علي حسام الدين السغناقي ت : ‏‏710 هـ ، وهو أول شرح للهداية ، وله شرح التمهيد في قواعد التوحيد ، والكافي ‏
    14. نهاية الكفاية : محمود بن عبيد الله المحبوبي ، وله مختصر الهداية المسمى بالوقاية
    15. الكافي في شرح الوافي : عبدالله بن أحمد حافظ الدين النسفي ، وهو شرح للوافي والهداية ‏معا . ت : 710 هـ
    16. شرح الهداية : السيد الشريف الجرجاني علي بن محمد بن علي الجرجاني ت 816 هـ
    17. شرح الهداية : ابراهيم بن علي بن عبد الحق الواسطي ت : 744 هـ ، ضمنه الآثار ‏ومذاهب السلف .‏
    18. حاشية على الهداية : جلال الدين عمر بن محمد الخبازي الخجندي ت : 761 هـ ، لم ‏يكمله ، وأكمله محمد بن أحمد القونوي ، وسماه تكملة الفوائد، وله المغني في أصول الفقه
    19. حاشية على الهداية : أبو الحسنات اللكنوي
    20. نهاية النهاية : أبو الفضل محمد بن محمد الثقفي الحلبي المعروف بابن الشحنة ت : 890 ‏هـ
    21. مقدمة الهداية : أبو الحسنات محمد بن عبد الحي اللكنوي الهندي ت : 1304 هـ ، جمع ‏فيه رجال الهداية ، وجعل له ذيلا سماه مذيلة الدراية
    22. مختصر شرح السغناقي على الهداية : أحمد بن الحسن ، ابن الزركشي ت : 738 هـ
    23. شرح الهداية : عصام الدين ، ذكره ابن عابدين في حاشيته المشهورة ، ولم أقف على ‏اسم المؤلف كاملا ‏
    24. شرح الهداية : عبد العزيز بن أحمد البخاري ، شرحه الى النكاح ومات ، وله شرح ‏البزدوي ، وشرح الأخسيكثي
    25. الكفاية مختصر الهداية : علي بن عثمان ، ابن التركماني ، وله شرح على الهداية لم يكمله ‏‏، ت : 750 هـ ، أكمله ابنه جمال الدين من حيث وقف أبوه .‏
    26. خلاصة النهاية : محمود بن أحمد القونوي ، اختصر فيه شرح الهداية للسغناقي ، له ‏التفريد في مختصر التجريد ، البغية ، الاعجاز
    27. خلاصة النهاية في فوائد الهداية : لعلاء الدين أبي القاسم محمود بن عبدالله بن صاعد ‏المروزي ت 606 هـ
    28. شرح الهداية لنجم الدين أبي الطاهر اسحاق بن علي بن يحيى الحنفي ت 711 ‏هـ ، وهو حاشية في مجلدين مشحونة بالفوائد النفيسة .‏
    29. شرح الهداية : لأحمد بن حسن التبريزي الجاربردي الشافعي ، ت : 744 هـ ‏ذكره العراقي وتبعه حاجي خليفة .
    30. النهاية على الهداية : لمحي الدين أبي محمد عبد القادر بن محمد القرشي الحنفي ‏‏، صاحب الجواهر المضية ، ت 775 هـ .‏
    31. التنبيه على مشكلات الهداية : لأبن أبي العز : ت : 792 هـ .‏
    32. شرح الهداية : تقي الدين أبي بكر بن محمد الحصني الشافعي ، ت 829 هـ ‏
    33. شرح الهداية : شرف الدين يعقوب بن ادريس بن عبدالله الرومي الحنفي ، ‏المشهور بقره يعقوب ، ت 833 هـ على ماذكره حاجي خليفة ، 844 هـ فيما ‏قاله اسماعيل باشا .
    34. حاشية على الهداية : مجد الدين محمد بن أحمد المدعو بمولانا زاده الخطائي ت ‏‏859 هـ .
    35. شرح الهداية : علي بن محمد بن محمد المشهور بمصنفك الهروي الرازي ، ت ‏‏875 هـ ، شرح الهداية ، ومختصرها الوقاية ( وقاية الرواية : محمود بن أحمد ‏المحبوبي )‏
    36. شرح الهداية : لسنان الدين يوسف بن خير الدين خضر بك بن جلال الدين ‏الرومي ، المعروف بخوجه باشا ت : 891 هـ ، ولم يكمله ، وأكمله بن أخيه ‏محمد بن مصطفى المتوفى 1039هـ .‏
    37. حواشي على الهداية : حميد الدين بن أفضل الدين الحنفي المفتي ت 908 هـ .
    38. حاشية على الهداية : لابن الشحنة مصلح الدين مصطفى بن شعبان السروري ‏ت : 962 هـ ، وله شرح مفيد على كتاب الحج من الهداية .
    39. شرح الهداية : لأبي الخير أحمد بن مصطفى بن خليل الحنفي المعروف بطاش ‏كبرى زاده ت 968 هـ .‏
    40. شرح الهداية : علي بن قاسم المرغيناني الزيتوني ، ت 979 هـ .‏
    41. شرح الهداية : لصاري كرز زاده محمد المرغيناني ، ت 990 هـ .‏
    42. شرح الهداية : زكريا بن بيرام الأنقره وي ، مفتي الاسلام الرومي ، ت 1001 ‏هـ ، وهو مذيل على فتح القدير لابن الهمام .‏
    43. شرح الهداية : عبد الحليم بن محمود ، المشهور بأخي زاده ، القاضي الرومي ‏الحنفي ت: 1013 هـ .‏
    44. شرح الهداية : علي بن سلطان محمد القاري الهروي نور الدين الفقيه ، ‏المحدث ت : 1014 هـ . وله شرح على الوقاية في مسائل الهداية ، وحاشية على ‏فتح القدير .
    45. حاشية لسري الدين بن ابراهيم الدروري المصري ت : 1069 هـ ، وهي على ‏شرح الأكمل .
    46. ترغيب اللبيب إلى تخليص شروح الهداية عن جروح العلامة ابن الكمال ، ولم ‏ينسبه حاجي خليفة لأحد .‏
    47. توجيه العناية لجمع شروح الوقاية : أبي اليمن محمد بن المحب .‏
    48. حاشية على الهداية : علي بن منق بن بالي ، شرح الهداية من الطهارة الى ‏الزكاة .‏
    49. روضة الأخيار : لم ينسبها حاجي خليفة لأحد
    50. زبدة الدراية في شرح الهداية : عبد الرحيم بن علي الآمدي .‏
    51. شرح الهداية : للمولى عطاء الله .
    52. شرح الهداية : حميد الدين مخلص بن عبدالله الهندي الدهلوي ، ولم يكتمل
    53. العناية بشأن الهداية : جلال الدين أحمد بن يوسف الثباتي ، وهي نكت على ‏الهداية .‏

ھدایہ کے مختصرات وتعلیقات وزواءد

    1. سلالة الهداية : ابراهيم بن أحمد بن بركة الموصلي ، اختصر فيه الهداية ت 652 ‏هـ
    2. زوائد الهداية على القدوري : علي بن نصر بن عمر نور الدين المشهور بابن ‏السوسي ت 695 هـ ، ذكر الفروع التي اشتمل عليها كتاب الهداية زائدا عما ‏تضمنه مختصر القدوري .‏
    3. تعليقة على الهداية : علي بن محمد بن الحسن القادوسي ، الملقب بالركابي ‏وبمزلقان ، ت 708 هـ .‏
    4. تعليقات على الهداية : لابراهيم بن علي بن أحمد الدمشقي المشهور بابن ‏قاضي حصن الأكراد
    5. كتاب فيما أهمله صاحب الهداية : لأحمد بن عثمان بن ابراهيم الشهير بابن ‏التركمان ت 744 هـ .‏
    6. الرعاية في تجريد مسائل الهداية : محمد بن عثمان بن موسى المعروف بابن ‏الأقرب المكنى بأبي المليح ت 744 هـ
    7. تهذيب الأسماء الواقعة في الهداية والخلاصة : عبد القادر بن محمد القرشي ‏صاحب الجواهر ت 775 هـ ، وله أوهام الهداية .‏
    8. تعليقة على الهداية : سراج الدين عمر بن علي الكناني ت 829 هـ ، ‏المعروف بقارىء الهداية .‏
    9. رسالة على أول الطهارة من الهداية : يوسف سنان باشا بن خضر بك ت ‏‏891 هـ .‏
    10. تعليقات على الهداية : سيف الدين أحمد ، حفيد السعد التفتازاني ، ت 906 ‏هـ .‏
    11. تعليقة على الهداية : المولى محمد بن علي المعروف ببركلي ت 981 هـ .
    12. تعليقة مختصرة على كتاب البيع من الهداية : للمولى أبي السعود ت 928 هـ ، ‏وله رسالة على كتاب الجهاد سماها نهاية الأمجاد .‏
    13. تعليقة على الهداية : المولى بابا زاده محمد القرماني ت 944 هـ .‏
      عدة أصحاب البداية والنهاية في تجريد مسائل الهداية : محمد بن أحمد المشهور ‏بطاش كبرى زاده ت 1030 هـ ، جمع المسائل وأشار إلى مواضع وجودها من ‏الهداية ، وأورد بعض الشروح المحتاج إليها في حل ألفاظ الهداية
    14. تعليقة على الهداية : المولى محيي الدين محمد بن مصطفى المعروف بشيخ زاده ‏المحشي .‏
    15. مهذب الهداية : محمد حسين الأنصاري ( مخطوط منه نسخة في المكتبة ‏المحمودية بالمدينة المنورة برقم 2600 )
    16. نكات أحقر الورى للسمرقندي الحميدي ، اختصرها للسلطان محمد الفاتح ‏‏، وصل فيها إلى كتاب الوقف . ‏

ھدایہ کے احادیث کی تخریج کرنے والے علماء امت

    1. الإمام العلامة علاء الدين علي بن عثمان المارديني المعرف بابن التركماني ، واسم ‏تخريجه : الكفاية في معرفة أحاديث الهداية ، وهو أول من نسب اليه تخريج أحاديث الهداية ‏‏.‏
    2. الإمام الحافظ جمال الدين عبدالله بن يوسف الزيلعي ت : 762 هـ وكتابه : نصب الراية ‏لأحاديث الهداية ‏
    3. الإمام الحافظ محيي الدين عبد القادر بن أبي الوفاء القرشي ت : 775 هـ وسمى كتابه ‏أولا الكفاية ، ثم سماه له شيخه المارديني العناية
    4. الإمام الحافظ شهاب الدين أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني ت : 852 هـ واسم كتابه ‏‏: الدراية في منتخب تخريج أحاديث الهداية ، وهو مختصر لنصب الراية ‏
    5. الإمام الحافظ قاسم بن قطلوبغا الجمالي ت : 879 هـ ، واسم كتابه : منية الألمعي فيما ‏فات من تخريج أحاديث الهداية للزيلعي .‏
    6. محمود بن عبيدالله بن صاعد علاء الدين الحارثي المروزي ت606 هـ ، وسماه التنبيه ‏على أحاديث الهداية والخلاصة ، ذكره مصلح الدين مصطفى بن شعبان في حاشيته على ‏الهداية .‏

اوران کے علاوه علامة السروجي صاحب الغاية ، اورقاضي ‏ابراهيم بن علي الدمشقي ، اورعلامة البابرتي صاحب العناية ، اورعلامة العيني صاحب البناية ، اورعلامة الكمال ‏بن الهمام صاحب فتح القدير ، اورالعلامة مصلح الدين مصطفى بن شعبان السروري ، رحمہم الله نے بهی اپنی شروحات میں احادیث هدایہ کی تخریج بهی هے ، یہ توایک سرسری نظراس عظیم کتاب کی خدمت وشرح وتشریح وتوضیح وبیان میں لکهے گئے کتابوں کی هے ، یہاں سے ایک عقل مند اس کتاب کی عظمت ومرتبہ کوبهی پہچان لیتا هے ، اوراس پرمزید علماء هند وپاک کی شروحات کوملا لیاجائے توصرف هدایہ کے شروحات کی ایک طویل فہرست تیار هوجائے ۰

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Meks Ads