ائمہ مجتھدین وفقہاء اسلام کے مابین اختلافات کے چند اہم اسباب
گذشتہ سطور میں ائمہ مجتهدین کے اختلاف کی حقیقت ونوعیت اوراس کے کچھ اسباب واقسام کا تذکره ہوا ، اب مزید چند اسباب کا تذکره پیش خدمت ہے۔
1 = لغت عربيہ کی اسالیب اورالفاظ کا معانی پردلالت میں اختلاف
جیسا کہ معلوم ہے کہ لغت عرب لغة القرآن الكريم اورلغة الحديث النبوي الشريف ہے اور پهرعربی زبان دنیا کی سب سے بڑی فصیح وبلیغ و وسیع وأدق ترین زبان ہے عربی زبان میں
مُؤوَّل ومُشترك ،حقیقت ومجاز ،عموم وخصوص ، صریح وکنایہ وغیره
اصطلاحات بکثرت استعمال ہوتے ہیں اسی بناء پراجتہاد
واستنباط بهی مختلف ہوجاتا ہے ، مثال اس کی جیسا کہ الله تعالی کا فرمان مبارک ہے
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ البقرة:
اب اس آیت میں ائمہ مجتھدین وفقہاءاسلام کا لفظ ( قُرُوءٍ ) میں اختلاف ہوا ہے قُرُوءٍ جمع ہے قرءَ کی اورلغت میں ( القرء ) کا نام حيض وطہر ( پاکی ) دونوں کے لیئے استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہاں آیت میں کون سا معنی مراد ہے ؟؟ تو ائمہ مجتهدین کا اس میں اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں (القرء) سے مراد حیض ہے اور شوافع فرماتے ہیں کہ یہاں (القرء) سے مراد طہر (پاکی) ہے ، اسی طرح عورت کو چهونے سے وضوء کے ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا لیکن شوافع فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، اختلاف کی اصل وجہ اس آیت مبارکہ
(أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوّاً غَفُوراً)
(النساء:) میں وارد لفظ (المَسّ) ہے ، شوافع یہ فرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ (مَسّ) یعنی چهُونے سے مراد لغوی معنی ہے یعنی صرف چهُونا، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ )مَسّ) سے لغوی حقیقت مُراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد (المباشَرة الفاحشة) یعنی انتشارکے ساتهہ دونوں کی شرمگاہوں کا ایک دوسرے کوچهُونا مراد ہے ، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء نہیں ٹوٹے گا ، ان دونوں مسائل میں دونوں طرف کے دلائل وقرائن کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔
2= کسی حدیث یا کسی راوی کی صحت وضعف پر اختلاف
جیسا کہ معلوم ہے کہ قرآن الكريم کے بعد سنت مُطہرة اسلام کی دوسری بڑی بنیاد واساس ہے اور یہ سنت مُطہرة واحادیث مبارکہ ہماری طرف مختلف رجال کے واسطہ سے پہنچے ہیں ، اور یہ سب چونکہ بشر وانسان تهے بشری تقاضوں سے ماوراء نہیں ہے، اورحدیث وسنت ہمارا دین ہے،اس لیئے علماء امت نے انتہائی سختی کے ساتهہ ایسے حضرات کی جانچ پڑتال کی جوحدیث وسنت روایت کرتے ہیں اوراس باب میں انتہائی سخت شرائط واصول وقواعد متعین کیئے اور یہ شرائط واصول چونکہ اجتہادی تهے اس لیئے محدثین کے مابین اس باب میں اختلاف واقع ہوا ، مثلا ایک امام کسی راوي کو ثقہ سمجهتا ہے اوراس کی روایت قبول کرتا ہے تو دوسرا امام اس راوي سے مطمئن نہیں ہوتا لہذا اس کی روایت قبول نہیں کرتا ، اسی طرح بعض ائمہ حدیث کے قبول کرنے میں بعض مسائل میں ایسے شروط لگاتے ہیں جو دوسرے ائمہ نہیں لگاتے ، اسی طرح حدیث کے انواع واقسام بهی اجتہادی ہیں تو اس وجہ سے بهی اختلاف واقع ہوا مثلا حديث مُرسَل ہے احناف اس کولیتے ہیں اوراس سے استدلال کرتے ہیں جبکہ شوافع اس کو ضعیف سمجهتے ہیں اوراس سے استدلال نہیں کرتے اوربعض حديث مُرسَل کومُطلقا قبول کرتے ہیں اوربعض بالکل قبول نہیں کرتے اوربعض کچھ شرائط کے ساتهہ قبول کرتے ہیں ، وغیرذالک اور ” الحديث المُرسَل ” اس حدیث کوکہا جاتا ہے
ما رواه التابعي عن النبي صلى الله عليه وسلم
جس میں تابعی کسی صحابی کے واسطہ کے بغیر کہے : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
3= افہام وعُقول وعلوم میں تفاوت کا اختلاف
جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ ایک طبعي أمر ہے کہ لوگ علم وفہم وعقل وسمجهہ کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ، ایسا ہی ائمہ اسلام وعلماء امت کا حال ہے لہذا اسی وجہ سے دلائل شرعیہ سے أحکام مُستنبَط کرنے اوراجتہاد کرنے میں اختلاف واقع ہوا ، اوراس کی ایک مثال بني قريظة میں عصر کی نماز کے حوالے سے صحابہ کا اختلاف جس کی تفصیل اوپر گذر چکی
)لا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ …) أخرجه البخاري ومسلم
ایک جماعت نے عصر کی نماز راستے میں پڑهی اور دوسری جماعت نے بني قريظة میں پڑهی ، اور دونوں کا اجتهاد صحیح ودرست ہے
4= ظني نص یعنی غير قطعي نص کا مطلب ومراد سمجهنے میں اختلاف
یعنی کبهی کسی نص ظني ( قرآن وسنت کے کسی حکم ) کا معنی پوشیده ہوتا ہے یا تاویل کا احتمال رکهتا ہے تو یہ بهی أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف کا سبب ہے ، اور یاد رہے کہ الله تعالی نے أحكام شرعية کے تمام دلائل کو قطعي نہیں بنایا بلکہ أكثرأحكام شرعية کو ظنيُ الدلالة بهی بنایا ہے تاکہ لوگوں کے لیئے مُكلفين کے لیئےآسانی اور وسعت حاصل ہو ، اوراجتهاد واستنباط کی صلاحیت رکهنے والے افراد کے لیئے میدان ومَجال وسیع ہو ، اور اس میں أفهام وعُقول میں تفاوت کا احترام و رعایت بهی ہے
5= بعض مَصادرُ التشريع ودلائل كےتعین میں اختلاف
یعنی جب کسی مسئلہ میں كتاب الله یا حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کوئ نص قاطع کوئ واضح دلیل موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے ،
جیسے استحسان ، مصالح المُرسَلة ، قولُ الصحابي ، عمل أهل المدينة ، وغیره ذالک
ان میں سے بعض کو بعض أئمہ مجتهدین حجت ودلیل مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے ، جیسا کہ کتب أصول الفقه میں پوری تفصیل موجود ہے۔
6= مختلف نصوص ودلائل کے مابین جمع وترجیح میں اختلاف
کبهی ایسا ہوتا ہے کہ ایک نص ثابت ہوتا ہے اورعلماء کا اس کے ثبوت پراتفاق ہوتا ہے لیکن اختلاف واعتراض اس وقت ہوتا ہے جب ظاہری طور پر اس نص کے مُعارض ومُخالف کوئ دوسری صحیح نص موجود ہو ، تو پهر اس صورت میں أئمہ مجتهدین وفقہاءاسلام کے مابین جمع وترجیح کے طریقوں میں اختلاف واقع ہوجاتا ہے ، یعنی مثلا دو صحیح دلائل آپس میں بظاہر مُتعارض ہوں توان کے درمیان جمع وترجیح کے مختلف طریقے ہیں ، جیسے عام وخاص، ومُطلق ومُقيد، وناسخ ومَنسوخ ،امر ونهي، وغیره ذالک کی دلالت کا اختلاف ، جیسا کہ کتب أصول الفقه میں پوری تفصیل موجود ہے .
7= قواعد ومَبادئ الأصوليه میں اختلاف
یعنی وه قواعد واصول جن کو أئمہ مجتهدین نے اپنے اجتهادات سے وضع کیا ہے جس کی بناء پرمجتهدین کی مختلف آراء ہوتے ہیں لہذا یہ بهی اختلاف کا سبب ہے
اوریاد رہے کہ ان سب امور میں اختلاف بهی شرعی دلائل سے ثابت ہے اورجن مذکوره بالا چند اہم اسباب کا تذکره ہوا ان کے علاوه کئ اوراسباب بهی ہیں جس کا تفصیلی ذکرعلماء امت نے اپنی کتب میں کیا ہے جیسا کہ حضرت الامام شاه ولی الله دهلوی رحمه الله نے اپنی
کتاب “الإنصاف في أسباب الاختلاف”
میں اوراسی طرح کئ اورعلماء نے بهی مستقل بحث کی ہے ، مثلا ایک کتاب ہے
أسباب اختلاف العلماء” للشيخ على الخفيف ، رفعُ الملام عن الأئمة الأعلام ، للشیخ ابن تيمية ، أثرالحديث في اختلاف الأئمة ، للشیخ محمد عوامة ، جزيل المواهب في اختلاف المذاهب ، للشیخ السیوطی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی
سنن النسائي ، وقال العلامة النيموي رحمه الله هذا إسناد صحيح
وقد اتفقت كلمة علماء الأمة على أن أحكام الشريعة كلها
معللة بمصالح العباد، ولأجلها شرعت، سواء منها ما هدانا الله لمعرفته بالنص عليه أو بالإيماء إليه؛ وما لم نهتد اليه فلحكمة يعلمها الله جل شأنه، ولذلك فإن كثيرا من الأحكام الاجتهادية تتغير بتغير الأزمنة، وقد تختلف باختلاف الأشخاص وطاقاتهم وقدراتهم وظروفهم.
كذلك ينبغي أن نصوص الكتاب والسنة، منها ما هو قطعي في ثبوته، وهو القرآن العظيم والمتواتر من السنة.. وأن من السنة ما هو ظني في ثبوته، مثل: أخبار الآحاد. ودلالة النص قد تكون ظنية، قد تكون قطعية كذلك، ومعرفة كل ذلك له أثره في الاستنباط والاجتهاد
والفهم من النص، فليس لأحد أن ينكر على الآخرين ما قد يفهمونه من النص من فهم مخالف لفهمه، ما دام اللفظ يحتمله، والدليل يتسع له، ونصوص الشرع الأخرى لا تناقضه أو تعارضه، ومعظم الأحكام المتعلقة بالفروع والمتناولة للنواحي العملية هي من النوع الذي يثبت بالطرق الظنية رحمة من الله تعالى بعباده، ليتسع للناس مجال الاجتهاد فيها، وما دام الشارع الحكيم قد فتح باب اليسر للعباد، وجعل مصلحة الناس معتبرة فلا يليق بأحد أن ينسب مخالفا له في أمر من هذه الأمور إلى كفر أو فسق أو بدعة، بل عليه أن يلتمس لمخالفه من الأعذار ما يجعل حبل الود موصولا بينهما، فيحظى بحبه وتقديره ۔
روي في الحِلْية، والمدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي،عن القاسم بن محمد أنه قال: كان اختلاف أصحاب محمد رحمة لهؤلاء الناس (وجاء التعبير بالرحمة في قول الإمام مالك للرشيد) وأن اختلاف العلماء رحمة من اللَّه على هذه الأمة، وقد ورد القول على ألسنة علماء ومحدثين قولهم: “إن اختلاف هذه الأمة رحمة من اللَّه لها، كما أن اختلاف الأمم السابقة كان لها عذاباً وهلاكاً، ولأئمة الشريعة الإسلامية وفقهائها أقوال كثيرة حول الاختلاف۔
ويرى العلامة القسطلاني المتوفى سنة 923 هـ في “المواهب اللدنية
أن الاختلاف من خصائص هذه الأمة المحمدية: حيث يقول: إجماعهم حجة، واختلافهم رحمة، وحكى الشيخ ابن تيمية، رحمه اللَّه، في مجموع الفتاوي عن أحد العلماء ولم يُسَمّه أنه كان يقول: “إجماعهم حجة قاطعة، واختلافهم رحمة واسعة”. وقد وجدت هذه المقولة الطيبة الصادقة في كلام ابن قدامة في مقدمة كتابه: المغني، وكان عظماء رجالات السلف ينظرون إلى اختلاف الأئمة أنه توسعة من اللَّه تعالى ورحمة منه بعباده المكلفين غير القادرين بأنفسهم على استنباط الأحكام الشرعية من مصادرها الأساس . ويقول القاسم بن محمد بن أبي بكر، أيضاً: لقد نفع اللَّه باختلاف المسلمين أصحاب النبي عليه الصلاة والسلام ، في أعمالهم، لايعمل العالم بعمل رجل منهم إلا رأى أنه في سَعَةٍ، ورأى أن أخاً خيراًً منه قد عمله، وروى ابن عبد البر: ماذكر مسنداً أن عمر بن عبد العزيز، قال: ما أحب أن أصحاب رسول اللَّه عليه الصلاة والسلام ، لم يختلفوا، لأنه لو كانوا قولاً واحداً كان الناس في ضيق، وإنهم أئمة يقتدى بهم، فلو أخذ رجل بقول أحدهم كان سَعَةً.
وقال الإمام السيوطي، رحمه اللَّه، في أوائل رسالته: جزيل المواهب في اختلاف المذاهب: فصل (اعلم أن اختلاف المذاهب في هذه الملة نعمة كبيرة وفضيلة عظيمة، وله سر لطيف أدركه العالمون، وعَمِِيَ عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي عليه الصلاة والسلام ، جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة ؟! ، إلى أن قال: فعرف بذلك أن اختلاف المذاهب في هذه المِلة خصيصة فاضلة لهذه الأمة، وتوسيع في هذه الشريعة السمحة السهلة، ومن سَعَتِها أنه وقع فيها التخيير بين أمرين، شرع كل منهما في ملة كالقصاص والدية، فكأنما جمعت الشرعين معاً، وزادت حسناً بشرع ثالث: وهو التخيير الذي لم يكن في إحدى الشريعتين. ومن ذلك مشروعية الاختلاف بينهم في الفروع، فكانت المذاهب على اختلافها كشرائع متعددة كل مأمور به في هذه الشريعة، فصارت هذه الشريعة كأنها عدة شرائع بعث بها النبي عليه الصلاة والسلام ، بجميعها، وفي ذلك توسعة زائدة لها، وفخامة عظيمة لقدر النبي عليه الصلاة والسلام ، وخصوصية له على سائر الأنبياء، حيث بعث كل منهم بحكم واحد، وهو بعث عليه الصلاة والسلام ، في الأمر الواحد بأحكام متنوعة يحكم بكل منها، وينفذ، ويصوب قائله، ويؤجر عليه، ويُقتدى به، ويؤكد علماء سابقون أن الاختلاف يفتح الآفاق ويُعمل العقل، ويُثري الفكر ويزيد في محصلات العالم والمتعلم على السواء. اهــ(
وقد ذكر الحافظ ابن عبد البر عن جماعة من فقهاء السلف أن الاختلاف في الفروع فيه سعة فروى عن القاسم بن محمد بن أبي بكر قال :[ لقد نفع الله باختلاف أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في أعمالهم لا يعمل العامل بعمل رجل منهم إلا رأى أنه في سعة ورأى أنه خير منه قد عمله … وعن القاسم بن محمد قـال : لقد أوسع الله على الناس باختلاف أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم أي ذلك أخذت به لم يكن في نفسك منه شيء … وعن رجاء بن جميل قال : اجتمع عمر بن عبد العزيز والقاسم بن محمد فجعلا يتذاكران الحديث قال فجعل عمر يجيء بالشيء مخالفاً فيه القاسم قال وجعل ذلك يشق على القاسم حتى تبين فيه فقال له عمر لا تفعل فما يسرني أن لي باختلافهم حمر النعم … وعن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه أنه قال : لقد أعجبني قول عمر بن عبد العزيز ما أحب أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يختلفوا لأنه لو كانوا قولاً واحداً كان الناس في ضيق وأنهم أئمة يقتدى بهم فلو أخذ رجل بقول أحدهم كان في سعة . قال أبو عمر هذا فيما كان طريقه الاجتهاد … وعن أسامة بن زيد قال سألت القاسم بن محمد عن القراءة خلف الإمام فيما لم يجهر فيه فقال إن قرأت فلك في رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة وإذا لم تقرأ فلك في رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة … وعن يحيى بن سعيد قال ما برح أولو الفتوى يفتون فيحل هذا ويحرم هذا فلا يرى المحرم أن المحل هلك لتحليله ولا يرى المحل أن المحرم هلك لتحريمه] جامع بيان العلم وفضله 2/80۔
وقال الشيخ ابن قدامة المقدسي في مقدمة كتابه العظيم المغني ما نصه] أما بعد : فإن الله برحمته وطَوْله وقوته وحوله ضمن بقاء طائفة من هذه الأمة على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك وجعل السبب في بقائهم بقاء علمائهم واقتدائهم بأئمتهم وفقهائهم وجعل هذه الأمة مع علمائها كالأمم الخالية مع أنبيائها وأظهر في كل طبقة من فقهائها أئمة يقتدى بها وينتهى إلى رأيها وجعل في سلف هذه الأمة أئمة من الأعلام مهد بهم قواعد الإسلام . وأوضح بهم مشكلات الأحكام اتفاقهم حجة قاطعة واختلافهم رحمة واسعة . تحيا القلوب بأخبارهم وتحصل السعادة باقتفاء آثارهم ثم اختص منهم نفراً أعلى قدرهم ومناصبهم وأبقى ذكرهم ومذاهبهم فعلى أقوالهم مدار الأحكام وبمذاهبهم يفتي فقهاء الإسلام] [المغني 1/3ء4[
وقال الإمام السيوطي رحمه الله في رسالته المسماة: “جزيل المواهب في اختلاف المذاهب” ) اعلم أنَّّ اختلاف المذاهب في الملة نعمة كبيرة، وفضيلة عظيمة، وله سر لطيف أدركه العالمون، وعمي عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة(
وقال الإمام الشاطبي المالكي رحمه الله في الاعتصام) فإنَّ الله تعالى حكم بحكمته أن تكون فروع هذه الملة قابلة للأنظار ومجالا للظنون، وقد ثبت عند النظار أن النظريات لا يمكن الاتفاق فيها عادة، فالظنيات عريقة في إمكان الاختلاف، لكن في الفروع دون الأصول، وفي الجزئيات دون الكليات، فلذلك لا يضر هذا الاختلاف(
وقال الإمام بدر الدين الزركشي الشافعي رحمه الله)اعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لم يُنَصِّبْ على جَمِيعِ الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ أَدِلَّةً قَاطِعَةً بَلْ جَعَلَهَا ظَنِّيَّةً قَصْدًا لِلتَّوْسِيعِ على الْمُكَلَّفِينَ لِئَلَّا يَنْحَصِرُوا في مَذْهَبٍ وَاحِدٍ(
وقال الإمام المناوي في فيض القدير شرح الجامع الصغير )ويجب علينا أن نعتقد أن الأئمة الأربعة والسفيانين والأوزاعي وداود الظاهري وإسحاق بن راهويه وسائر الأئمة على هدى ولا التفات لمن تكلم فيهم بما هم بريئون منه(
وصنف رجل كتاباً في الاختلاف فقال الإمام أحمد بن حنبل: (لا تسمه كتاب الاختلاف، ولكن سمه كتاب السعة(
وفى هذا القدر كفاية لمن أراد الهداية
مذاہب أربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین اختلافات کے اسباب ، اورکیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟
مذکوره بالا عنوان کے تحت انتہائ اختصارکے ساتهہ چند اہم باتیں ذکرکروں گا تاکہ ایک عام مسلمان جان سکے کہ مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین اورفقہاء اسلام کے مابین مسائل میں اختلاف کی وجوہات کیا ہیں اور کیا یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے اورآپس میں جنگ وجدل وحسد وبغض کی وجہ سے ہے یا کسی اور جائز ومقبول ومعقول امور کی وجہ سے ہے ؟؟ مذاهب اسلاميه ومذاهب أربعه کا فروعی مسائل میں اختلاف امت کے لیئے رحمت ویُسر وآسانی ہے اوریہ الله تعالى کا فضل وکرم ہے کہ مذاهب مُعتبره مذاهب أربعه یعنی مالكيه وحنفيه وشافعيه وحنابله کے مابین عقائد وأصول الدين میں کوئ اختلاف نہیں ہے بلکہ فروعی مسائل میں ایک جُزئي اورغیرمُضراختلاف ہے اوریہ اختلاف بهی شرعی دلائل وبراہین کی بنیاد پرہے اورتاريخ الإسلام میں کبهی یہ نہیں سنا گیا کہ مذاهب أربعه کا اختلاف محض جهگڑا ونزاع وفساد ہے ، معاذالله
الإمام السيوطي رحمه الله نے اپنے رسالہ جزيل المواهب في اختلاف المذاهب میں بڑی بہترین بات لکهی ہے فرمایا خوب جان لو کہ مذاهب (أربعه ) کا اختلاف ملت اسلام میں ایک بڑی نعمت ہے اورایک عظيم فضیلت ہے اوراس اختلاف کا ایک لطيف وباریک راز ہے جس کا ادراک علماء کو ہے جُہلاء اس لطيف وباریک راز کے ادراک وسجهہ سے اندهے ہیں حتی کہ میں نے بعض جُهال سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم ایک شریعت لے کرآئے تو یہ مذاهب أربعه کہاں سے آگئیں ؟؟ . الإمام السيوطي رحمه الله کی طرح دیگربے شمارعلماء امت نے بهی اسی طرح کا کلام کیا ہے اورالإمام السيوطي رحمه الله کی تصریح کے مطابق جولوگ مذاهب أربعه اوران کے علماء وفقہاء کوبرا وغلط کہتے ہیں ایسے لوگ جاہل اورکوڑمغزہیں شریعت کے اسرارولطائف سے بے خبر ہیں ، جیسا کہ معلوم ہے کہ فی زمانہ کچهہ جاہل لوگ عوام الناس کو دین میں آزاد وبے باک بنانے کے لیئے مختلف قسم کے وساوس پهیلا کر لوگوں کو بے راه کرتے ہیں من جملہ ان وساوس کے ایک وسوسہ یہ بهی پهیلایا جاتا ہے کہ مذاہب اربعه اور آئمہ اربعه کے درمیان بڑا اختلاف وجهگڑا پایا جاتا ہے لہذا دین کے معاملہ میں ان چاروں مذاهب کو چهوڑنا ازحد ضروری ہے ، یاد رہے کہ نصوص کی سمجهہ وفہم میں اختلاف (یعنی مختلف آراء) صحابة کرام رضي الله عنهم کے مابین اورپهران کے بعد علماء امت کے مابین موجود چلا آرہا ہے اوراس بات کا انکار کوئ بڑاجاہل اورعقل وعلم وحس سے محروم شخص ہی کرے گا ، اور پهر فروعی مسائل میں آئمہ مجتہدین کے مابین اختلاف جنگ وفساد نہیں (معاذ الله ) بلکہ امت کے لیئے رحمت ہے اوراس امت مرحُومہ پر الله تعالی کی بے شماراحسانات میں سے ایک اہم احسان یہ بهی ہے کہ اس امت کے علماء کے اتفاق کو الله تعالی نے حُجة قاطعه بنایا ہے اوران کے اختلاف کورحمت و وسعت بنایا ہے، اور پهرفروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی موجود تها اورصحابہ کرام جودین اسلام اورقرآن وسنت کے اولین راوی وناقل وحامل جماعت ہے ہم تک سارا دین انهی مقدس ومحترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تها تو لازم ہے کہ ان کے بعد آنے والے تابعین وتبع تابعین وعلماء امت کے درمیان بهی یہ اختلاف موجود ہو اورایسا ہی ہوا کہ بعد کے آئمہ مجتہدین وعلماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا آرہا ہے
اختلاف کی تعریف واقسام
خلاف کی لغوی تعریف ہے ، الاختلاف والمخالفة ، یعنی ایک شخص حال یا قول میں دوسرے کے مخالف رائے ومَنہج اختیارکرے
اورخلاف کی اصطلاحی تعریف ہے ، کہ کسی کے ساتهہ قول یا رأي یا حالت یا هيئت یا مُوقف میں مخالف کرنا
یعنی خلاف یہ ہے کہ طرفين میں سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہو
اختلاف کے اقسام
علماء کرام نے اسلام میں رد وقبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں ، پہلی قسم ہے اختلاف تـَنـَوُّع ، دوسری قسم ہے اختلاف تـَضـَاد
1 = اختلاف تـَنـَوُّع ، تـَنـَوُّع ، کا مطلب یہ ہے کہ کوئ چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہروه اختلاف جس میں کئ وجوہات جائز ہوں ، اوراس اختلاف میں مُنافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفي وإبطال نہیں کرتا بلکہ ہرقول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا ، اوراس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں ، اور پهر یہ کئ قسم پرہوتا ہے مثلا ایک یہ کہ دونوں فعل اوردونوں قول جائز وحق ہوں جیسا کہ قرآن کی قراأت کہ صحابہ کے مابین ان میں اختلاف ہوا
وعن ابن مسعود قال : سمعت رجلا قرأ ، وسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ خلافها فجئت به النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته ، فعرفت في وجهه الكراهة ، فقال : كلاكما محسن فلا تختلفوا الخ رواه البخاري
ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے اس کے برخلاف پڑهتے ہوئے سنا تها یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑهہ رہا تها نبی صلى الله عليه وسلم سے میں نے اس طرح نہیں سنا لہذا میں نے اس کو نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضرکیا اورمیں نے نبی صلى الله عليه وسلم کو اس اختلاف کی خبردی ، پس میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کے چہره ( مبارک ) پرناپسندیدگی کے آثار دیکهے ، اورنبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم دونوں درست ہو، یعنی قراءت کی روایت میں ، علامہ طيبي رحمه الله فرماتے ہیں کہ وه آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو نبی صلى الله عليه وسلم سے سنا وه اس میں درست ہے
اسی طرح دو مختلف معانی کسی قول سے لیئے جائیں لیکن دونوں متضاد نہ ہوں بلکہ دونوں قول باوجود مختلف ہونے کے صحیح ہوں اوریہ اکثراختلافی مسائل میں موجود ہے اوراس طرح کا اختلاف خود رسول الله صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں واقع ہوا ہے اورآپ نے دونوں اقوال کو درست قراردیا ، مثال اس کی یہ ہے : غزوة الأحزاب : کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
« من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يصلين العصر إلا في بني قريظة »
(رواه البخاري ومسلم وغيرهما). یعنی جوشخص الله پراورآخرت کے دن پرایمان رکهتا ہے وه عصرکی نمازنہ پڑهے مگر بَنی قریظہ میں ، اب جب غروب کا وقت قریب ہوگیا تو رسول الله صلى الله عليه وسلم کے اس قول مبارک کے سمجهنے میں صحابہ کرام کے مابین اختلاف واقع ہوگیا ، اب بعض صحابہ نے یہ سمجها کہ مراد اس قول سے سرعت اورجلدی ہے اوراگرنمازکا وقت راستے میں آجائے تو راستے میں پڑهہ لی جائے لہذا انهوں نے عصرکی نماز راستے میں ہی پڑهہ لی ، لیکن بعض صحابہ نے راستے میں نماز نہیں پڑهی اوراس قول کا مطلب یہ سمجها کہ ہم عصرکی نماز بني قريظة میں ہی پڑهیں گے اگرچہ غروب کے بعد ہی کیوں نہ ہو ، رسولُ الله صلى الله عليه وسلم نے کسی ایک پر بهی انکار نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا ، اوراس طرح کے اختلاف میں دونوں فریق بلاشک مُصیب اوردرست ہیں ، اوریاد رہے کہ اسی قسم کا اختلاف مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین بهی بکثرت موجود ہے، کیا کوئ عقل مند شخص مذکوره بالا حدیث پڑهنے کے بعد یہ کہ سکتا ہے کہ معاذالله یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟ یقینا نہیں اورہرگزنہیں بلکہ یہ بات توایک جاہل ومجہول علم وعقل سے کوسوں دور شخص ہی کرے گا ،
یادرہے کہ تمام فروعی اختلافی مسائل اسی قسم کے تحت آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اختلاف جائز ومقبول ومحمود ہے اورائمہ اربعہ کا اختلاف اذان واقامت ، واستفتاح ، وتشهد ، وغیره کے الفاظ میں اسی طرح صلاة الخوف ، وتكبيرات العيد، وتكبيرات الجنازة ، وفاتحة خلف الامام ، رفع یدین وعدم رفع یدین ، وآمین بالجهر وغیره مسائل میں اختلاف اسی قبیل سے ہیں الخ
میں پهرعرض کرتا ہوں کہ یہ اختلاف معاذالله ضد وفساد وتفرقہ بازی وبائیکاٹ نہیں ہے بلکہ اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین وعلماء اسلام آپس میں انتہاء درجہ محبت وعقیدت رکهتے تهے اورایک دوسرے کو گمراه اورغلط وباطل نہیں کہتے تهے اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات ومثالیں موجود ہیں ، میں صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں إمام دار الهجرة إمام مالك بن أنس رحمه الله نے أهل المدينه یعنی أولاد صحابه سے علم حاصل کیا اوراسی علم کواپنی کتاب مُوطأ میں جمع کیا ، إمام الشافعي رحمه الله نے إمام مالك بن أنس رحمه الله سے شرف تلمذ حاصل کیا اوران سے علم حاصل کیا اوران کی احادیث کو روایت کیا ، لیکن اس سب کچهہ کے باوجود إمام الشافعي رحمه الله نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں إمام مالك بن أنس رحمه الله کی مخالفت کی ، لیکن کبهی بهی إمام مالك رحمه الله کے اجتہاد کوغلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ ، أنا مجتهد وهو مجتهد ولكل مجتهد نصيب ، یعنی میں بهی مجتہد ہوں اور إمام مالك بهی مجتهد ہے اورہرمجتهد کا اپنا نصیب وحصہ ہے
یعنی إمام مالك تو میرا شیخ واستاذ ہے لہذا میں ان کے پیچهے نماز پڑهتا ہوں اگرچہ میں نے بعض أمور اجتهاديه میں ان کی مخالفت کی ہے ، مثلا إمام مالك رحمه الله فاتحه اور سورت میں بسم الله جهرا (اونچی آوازسے ) پڑهنے کے قائل نہیں ہیں ، لیکن إمام الشافعي رحمه الله بسم الله جهرا پڑهنے کے قائل ہیں
وغیره ذالک اور یہی حال دیگر تمام ائمہ مجتهدین کا ہے ، رحمهم الله تعالی
حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله اپنی کتاب حجة الله البالغة میں اختلاف الصحابة في الأحكام كثير عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ صحابہ تابعین اوران کے بعد کے علماء میں بعض بسم الله پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے ، اوربعض بسم الله (نمازمیں) جهرا پڑهتے تهے اور بعض جهرا نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض فجرکی نمازمیں قنوت پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض حجامت ( سینگی لگانے ) اورنکسیر اورقيء کے بعد وضوء کرتے تهے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اور بعض مَس ذكر اور عورت کو شہوت کے ساتهہ چهونے کے بعد وضوء کرتے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اوربعض آگ سے پکی ہوئ چیز کهانے کے بعد وضوء کرتے تهےاور بعض نہیں کرتے تهے ، اوربعض اونٹ کا گوشت کهانے کے بعد وضوء کرتے تهےاور بعض نہیں کرتے تهے ، پهر حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے فرمایا کہ ائمہ کا یہ اختلاف اندهی تعصب کی وجہ سے نہیں تها ( بلکہ شرعی دلیل کی بنیاد پرتها ) لہذا باوجود اس اختلاف وه ایک دوسرے پیچهے نمازپڑهتے تهے جیسے امام أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام شافعي وغيرهم رضي الله عنهم مدینہ کے مالكي مذهب کے ائمہ کے پیچهے نمازپڑهتے تهے اگرچہ وه نماز میں بسم الله سراً اور جهراً نہیں پڑهتے . اور هارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑهائ اور الإمام أبو يوسف حنفی نے ان کی امامت نماز پڑهی اورنماز کا اعاده نہیں کیا ، الإمام أحمد بن حنبل سینگی اورنکسیر آنے کے بعد وضوء کے قائل تهے ، ان سے کہا گیا کہ اگرامام کا خون نکل گیا اور وضوء نہیں کیا توآپ اس کے پیچهے نمازپڑهتے ہیں ؟؟ توفرمایا کیوں نہیں میں الإمام مالك وسعيد بن المسيب کے پیچهے نمازپڑهتا ہوں ، اور روایت کیا گیا ہے کہ امام أبويوسف وامام محمد عیدین میں ابن عباس رضی الله عنهما کی تکبیر کہتے تهے کیونکہ هارون الرشيد اس تکبیر کو پسند کرتے تهے ، اورامام الشافعي رحمه الله نے امام أبي حنيفة رحمه الله کی مقبره کے قریب صبح کی نماز پڑهی تو امام أبي حنيفة رحمه الله کی ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑها،
اورامام الشافعي رحمه الله نے یہ بهی فرمایا کہ کئ دفعہ ہم أهلُ العراق کے مذهب کو بهی لیتے ہیں الخ
یاد رہے کہ حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے اس باب میں ایک مستقل کتاب بنام ( ألانصاف في بيان أسباب الاختلاف ) لکهی ہے ، یہ کتاب حجم میں تو اتنی بڑی نہیں ہے لیکن معارف وحقائق سے بهرپور ہے اور تاريخ التشريع اور فقهی اختلافات کے اسباب وعلل وغیره مسائل پر مشتمل انتہائ اہم کتاب ہے اهل علم اس کتاب سے استفاده کرسکتے ہیں ، اسی طرح الإمام السيوطي رحمه اللَّه نے اس باب میں جزيلُ المَواهِب في اختلاف المَذاهب کے نام سے ایک رسالہ لکها ہے ، اوربہت سارے علماء امت نے اس باب میں کتب ورسائل ومستقل ابحاث لکهی ہیں ،
وقال الشيخ شاه ولي الله الدهلوي تحت عنوان اختلاف الصحابة في الأحكام كثير ، ما نصه :
حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله کا یہ کلام پڑهنے کے بعد یہ بات کتنی واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ائمہ مجتهدین وسلف صالحین کے مابین فروعی واجتہادی مسائل میں اختلاف شرعی دلیل وبرہان کی بناء پرتها ضد وتعصب وحسد ونفرت کی بنیاد پرنہیں تها ، اورپهراس اختلاف کے باوجود وه ایک دوسرے پر غلط وباطل ہونے کا فتوی نہیں لگاتے بلکہ آپس میں باہم شیر وشکرتهے اورایک دوسرے کے اجتہادات کا احترام کرتے تهے اور آپس میں حد درجہ احترام وعقیدت کا رشتہ رکهتے تهے اورادب واحترام کے اتنے اونچے مقام پرفائز تهے کہ بعض دفعہ دوسرے کسی مجتهد کے قول کے خاطر اپنے اجتہادی قول پرعمل بهی چهوڑ دیتے جیسا اوپر امام الشافعي رحمه الله کی بات ذکرہوئ کہ انهوں نے امام اعظم أبي حنيفة رحمه الله کی ادب کی وجہ سے صبح کی نماز میں قنوت نہیں پڑها حالانکہ ان کا قول واجتہاد قنوت پڑهنے کا ہے ، حاصل یہ کہ ان اکابراعلام واسلاف امت کے اس طرح واقعات واحوال بکثرت موجود ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس دور میں کچهہ ایسے جاہل لوگ بهی پیدا ہوئے جن کا مقصد عوام ُالناس کو دین میں آزاد وشتربے مہار کرنا ہے ایسے جاہل لوگوں نے عوام ُالناس کو بے راه کرنے کے لیئے بڑے خوبصورت حیلے بہانے اور وساوس تیار کر رکهے ہیں ، ان وساوس میں سے ایک وسوسہ یہ بهی تیارکیا کہ ائمہ مجتهدین اور مذاهب اربعه کے مابین اختلاف ہے اور فتنہ وفساد ہے لہذا ان کو خیرباد کہنا ضروری ہے اوراس طرح ایک عامی شخص یہ وسوسہ اگرقبول کرلیتا ہے اور ائمہ مجتهدین سے بدظن ومتنفرہوجاتا ہے اور ان کی برائ وتحقیر شروع کردیتا ہے تو یہ شخص گمراہی کی وادی میں قدم رکهہ لیتا ہے اور پهر جتنا آگے بڑهتا ہے علم وهدایت سے دور چلا جاتا ہے ، معاذالله
2 = اختلاف تـَضـَاد ، تـَضـَاد لغت میں ضد کوکہتے ہیں جمع اس کی أضداد آتی ہے اور لغت میں ضِدُّ الشَيء کسی چیزکے مخالف ومُبائن اورالٹ چیزکوکہا جاتا ہے اور دو مَتضَاد چیزیں وه ہوتی ہیں جوآپس میں جمع نہیں ہوسکتے جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تـَضـَاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع ناممکن ہو ، بعض علماء نے اختلاف تـَضـَاد کی تعریف ألقـَولان المُتنـَافِيَـان سے کی ہے ، اور پهر یہ اختلاف اصول میں ہوتا ہے اور یقینا اهل سنت کے مابین اصول دین میں کوئ اختلاف نہیں ہے لہذا یہ اختلاف مذموم و ناجائز ہے ، مثال اس کی جیسا کہ أهل حق أهل سنت والجماعت کا اختلاف فِرَق باطلہ وضالہ وأهل البدع کے ساتهہ اصول دین میں
كمـا قـال تعـالى : فَذَلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمُ الحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ ، يونس: 32، وقـال تعـالى : وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ، يونس: 36.
والله تعـالى أعلـم وعلمـه أتـم وأحكـم
رفع یدین ، فاتحة خلف الإمام ، آمین بالجهر ۔۔۔ بداية المجتهد
رفع یدین ، فاتحة خلف الإمام ، آمین بالجهر وغیره مسائل میں أئمہ أربعہ وغیرہم علماء امت کے مابین فروعی اختلاف موجود ہے ، اوران مسائل پر بے شمار تفصیلی ومختصرکتب ورسائل بهی موجود ہیں ، اور پهر یہ اختلاف حق وباطل کا اختلاف نہیں ہے بلکہ دلائل پرمبنی اختلاف ہے جوکہ امت کے لیئے رحمت ہے ، لہذا اسی وجہ سے میں نے اس تهریڈ میں ان مسائل کا ذکرنہیں کیا
مثال کے طور پر رفع یدین کا مسئلہ لے لیں ، نماز میں رفع یدین کے سلسلہ میں مختلف روایات وارد ہوئ ہیں ،
اور دور اول سے صحابہ وتابعین کا عمل بهی اس بارے مختلف رہا ہے ، اس لیئے ہرمجتہد نے ان روایات وآثار میں غور وخوض کیا اورجس نے جس کو راجح ( بہتراورزیاده صحیح ) سمجها اس کو اختیارکیا ، نماز کے شروع میں تکبیرتحریمہ کے وقت رفع یدین بالاتفاق سنت ہے ، اور کیا رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین (دونوں ہاٹهہ اٹهانا ) سنت ہے یا نہیں ؟؟ اس بارے میں أئمہ أربعہ کا اختلاف ہے ، حنفیہ کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی (یعنی بہترنہیں ) ہے ، اورمالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین نہیں ہے ،
اور شوافع اور حنابلہ فرماتے ہیں کہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت موکده ہے ،
اب اس مسئلہ میں اوراس طرح کے دیگرفروعی مسائل ائمہ کے مابین اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ دونوں میں افضل وبہترکیا ہے ؟؟ جس نے جس بات کو راجح ( بہتراورزیاده صحیح ) سمجها اس کو اختیارکیا ، لہذا ان فروعی مسائل میں کسی کو بهی باطل یا غلط کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ دونوں طرف روایات وآثارموجود ہیں
باقی فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل اکثرافراد کا عمل ان فروعی مسائل میں اکثراحناف کی ضد میں ہوتا ہے حدیث پرعمل کا جذبہ کم ہی ہوتا ہے کیونکہ اگران کا مقصد حدیث پرہی عمل کرنا ہے تو پهر وه احادیث جو احناف کا مستدل ہیں ان پر یہ لوگ کیوں عمل نہیں کرتے ؟؟
اس مسئلہ میں ایک سرسری تجزیہ درج ذیل ہے جوکہ مذاهب اربعہ کے مسائل پرمشتمل مشہور کتاب ((بداية المجتهد )) سے ماخوذ ہے
ذهب الجمهور إلى أن رفع اليدين في أول الدخول في الصلاة مندوب وذهب داود وجماعة من أصحابه إلى وجوبه، ثم إنهم اختلفوا، فبعضهم قصره على تكبيرة التحريم وبعضهم عممه في الركوع والرفع منه، ومنهم من زاده عند السجود. وسبب هذا الاختلاف معارضة ظاهر حديث أبي هريرة رضي الله عنه في تعليمه صلى الله عليه وسلم للأعرابي المسيء في صلاته وفيه أنه قال له: “كبر” ولم يأمره برفع يديه فبقي فعله على الندب كما ثبت أيضا عنه صلى الله عليه وسلم من حديث ابن عمر وغيره “أنه صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة”(1) فأهل الكوفة قصروه على تكبيرة التحريم، وبه قال سفيان الثوري، وهي رواية ابن القاسم عن مالك رحمهم الله تعالى. وأما الشافعي وأحمد وأبو عبيدة وأبو ثور وجمهور أهل الحديث وأهل الظاهر فجعلوه عند الاستفتاح وعند الركوع والرفع منه وهو مرويّ أيضا عن مالك، إلا أنه عند بعضهم واجب وعند البعض الآخر مندوب، على أن بعض أهل الحديث زادوا الرفع في السجود والرفع منه. وحجة من قصره على تكبيرة الاستفتاح حديث عبد الله بن مسعود وحديث البراء بن عازب أنه صلى الله عليه وسلم “كان يرفع يديه عند الإحرام مرة واحدة لا يزيد عليها”(2). وحجة من عممه في الاستفتاح والركوع والرفع منه حديث ابن عمر عن أبيه رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم “كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه وإذا رفع رأسه من الركوع رفعهما أيضا وقال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، وكان لا يفعل ذلك في السجود”(3) وهو حديث متفق على صحته، وزعموا أنه روى ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثة عشر رجلا من أصحابه. واحتج من زاد الرفع في السجود بحديث وائل بن حجر وفيه “أنه صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه عند السجود”(4)، فمالك اقتصر على الرفع في تكبيرة الاستفتاح فقط مقتديا بعمل أهل المدينة ـ كما هو مذهب العاملين بحديثي ابن مسعود والبراء، وغيرهم عملوا بحديث عبد الله بن عمر لشهرته واتفاق الجمهور عليه، والله أعلم. اهـ من بداية المجتهد لابن رشد بتصرف(5). ——————- (1) أخرجه مسلم (1/292) [كتاب الصلاة/باب استحباب رفع اليدين حذو المنكبين]، رقم 390/22. والإمام مالك في الموطأ (1/75) [كتاب الصلاة/باب اقتتاح الصلاة]، رقم 16. (2) ورد هذا الحديث من طرق كثيرة منها حديث ابن مسعود رضي الله عنه الذي أخرجه: أبو داود (1/199 ـ 200) [كتاب الصلاة/باب من لم يذكر الرفع من الركوع]، رقم 448، 449، 450. والترمذي (2/40) [كتاب الصلاة/باب أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا مرة]، رقم 257. وقال: حديث ابن مسعود حديث حسن والنسائي (2/525) [كتاب الافتـتاح/باب ترك رفع اليدين للركوع]، رقم 1025. وأخرجه النسائي أيضا (2/540) [كتاب الافتتاح/باب الرخصة في ترك رفع اليدين حذو المنكبين عند الرفع من الركوع]، رقم 1057. (3) أخرجه البخاري (2/255) [كتاب الأذان/باب رفع اليدين في التكبيرة الأولى]، رقم 735. ومسلم (1/292) [كتاب الصلاة/باب استحباب رفع اليدين حذو المنكبين]، رقم 390/21 ـ 22. والإمام مالك في الموطأ (1/75) [كتاب الصلاة/باب افتتاح الصلاة]، رقم 16. (4) أخرجه الدارقطني (1/291) [كتاب الصلاة/باب التكبير ورفع اليدين]، رقم 13. والبيهقي (2/81) [كتاب الصلاة/باب التكبير عند رفع الرأس من السجود] (2/118). (5) بداية المجتهد لابن رشد الحفيد (1/133 ـ 134).
Add comment