جہمی علماء اہلحدیث Jehmi Ulma E Ahle Hadees

 

جہمی علماء اہلحدیث

نوٹ : یہاں اہلحدیث  انگریز کے دور میں انگریز کا پیدا کردہ لامذہب فرقہ مراد ہے جس نے انگریز سے اپنا نام اہل حدیث الاٹ کروایا۔

یہ ان کے بڑے بڑے بزرگ جو کہ اللہ کی ذات کے متعلق وہ عقیدہ رکھتے تھے جو کہ آج کے اہلحدیث کے نزدیک جہمیہ کا عقیدہ کہلاتا ہے۔
خود فیصلہ کیجئے یا تو ان کے یہ بڑے بڑے اہلحدیث نہیں تھے یا آج کہ یہ وکٹورین اہلحدیث نہیں۔

1
فرقہ اہل حدیث کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی الجہمی
لکھتے ہیں
”ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لاشریک لہ باری تعالٰی کے واسطے ہے“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 6)

2
فرقہ اہلحدیث کے شیخ السلام ثناء اللہ امرتسری  الجہمی
لکھتے ہیں
” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز اور ہر کام پر حاضر ہے“۔
(تفسیر ثنائی ص 347 )

3
محقق اہلحدیث قاضی شوکانی الجہمی
لکھتے ہیں
وكما نقول هذا الاستواء والكون في تلك الجهة فكنا نقول في مثل قوله تعالي وهو معكم اينما كنتم ۔۔۔۔۔ ولا نتكلف بتاويل ذالك كما يتكلف غيرنا بان المراد بهذا الكون المعنيت هوك‍ن العلم و عليتهفان هزا شعبة من شعب التاويل تخالف مذاهب السلف و تبائن ماكان عليهه الصحابة و تابعوهم رضوان اللہ عليهم اجمعين
ترجمہ
”جیسا ہم استواء اور جہت فوق کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں ویسا ہی ان اقوال خدا وندی هو معكم وغيرہ ”وہ تمہارے ساتھ“ ہے کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں۔۔ ہم اس کی تاویل علم کے ساتھ یا نصرت کے ساتھ کرنے میں تکلف نہیں کرتے جیسا کہ اور لوگ تکلف کرتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ ساتھ ہونے سے اس کا علم مراد ہے کیونکہ یہ بھی تاویل کی ایک شاخ ہے جو مذہب صحابہ ؓ و تابعین وغیرہ سلف کے خلاف ہے “
(التحف ص 16  بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 202)

4
فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان الجہمی
لکھتے ہیں
”ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ استویٰ علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا اور اس کا قرب اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کے ساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جاری ہیں کیونکہ تاویل کرنے کی کوئی دلیل شرعی وارد نہیں ہوئی“۔
(کتاب الجوائز والصلات ص 262)
اس عبات کو نقل کرنے کے بعد  فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری  الجہمی لکھتے ہیں
” میں کہتا ہوں کہ یہ عبارت قاضی شوکانی کی عبارت سے بھی واضح تر ہے مطلب اس کا وہی ہے کہ خدا تعالٰی جیسا کہ عرش پر ہے ویسا ہی زمین پر ہے رہا یہ امر کہ کیسے ہے سو یہ سوال کیفیت سے ہے جو حوالہ بخدا ہے“۔
(مظالم روپڑی ص 13)

5
فرقہ اہلحدیث کے وکیل اعظم محمد حسین بٹالوی الجہمی
جنہوں نے اپنے فرقہ کا نام انگریز سے اہلحدیث الارٹ کروایا
لکھتے ہیں
” میں خدا کی صفت قرب معیت اور اللہ تعالٰی کا آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا تاویل یقین کرتا ہوں“۔
(مظالم روپڑی ص 11)

6
حکیم محمد صاق سیالکوٹی الجہمی
لکھتے ہیں
” یقین کریں کہ اللہ تعالٰی حاضر ناظر اور موجود ہے“۔
(انوار التوحید ص 39)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
”اللہ کی اس صفت حاضر  و ناظر اور ہر جگہ موجود ہونے میں ہے کوئی اس کا شریک ؟ ہر گز نہیں !“
(انوار التوحید ص 75)

7
فرقہ اہلحدیث کے  محدث عبد الرحمٰن مبارکپوری  الجہمی
لکھتے ہیں: ” ينز الله تبارك و تعالي كل ليلة قد اختلف في معني النزول علي اقوال فمنهم من حمله عليظاهر و حقيقة وهم المشبهة “
ترجمہ
”نزول کے بارے میں کئی اقوال  کا اختلاف ہے بعض نے اسے اپنے ظاہر اور حقیقت پر حمل کیا ہے اور یہی لوگ مشبہہ (یعنی  گمراہ فرقہ مجیسمہ) ہیں“۔
(تحفة الاحوذی ص 324)
فرقہ اہلحدیث اسے ظاہر اور حقیقت پر حمل کرتے ہیں  اور ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں جیسا مشبہہ فرقہ کا ہے اور ایسا نہ کرنے والے کو وہ جہمیہ کہتے ہیں۔

8 ڈاکٹر عبد الكبیر محسن الجہمی صاحب
بھی یہی لکھتے ہیں
”اللہ تعالٰی کے لئے جہت علو کے قائلین اس سے استدلال کرتے ہیں نزول سے مراد میں اختلاف ہے بعض نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے اور اسے حقیقی نزول قرار دیا ہے یہی مشبہہ (گمراہ فرقہ) کا قول ہے“۔
(توفیق الباری ج 2 ص 56)

9
فرقہ اہلحدیث کے علامہ رئیس ندوی الجہمی
لکھتے ہیں
” عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہونا اللہ کی ایک صفت ہے
ابھی جو شرک کی تعریف کی گئی اس کے مطابق اللہ کی کسی صفت میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو قولاً و عملاً و اعتقاداً شریک ماننا ، جاننا اور کہنا بھی شرک ہے اور بہت سارے نصوص شرعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہونا اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔۔۔۔۔۔ صرف اللہ تعالٰی ہی عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہے“۔
(تصحیح العقائد ص 33)
نبیﷺ کو حاضر و ناظر سمجھنے والے نبیﷺ کی ذات کو حاضر و ناظر کہتے ہیں اوایسا ر  رب تعالٰی  کے ساتھ شرک اسی صورت ہو سکتا ہے جب اللہ کی ذات کو بھی حاضر و ناظر مانا جائے۔

10
سلطاں جہاں بیگم زوجہ نواب صدیق حسن خان الجہمی
لکھتی ہیں
” اور نہ اسکا کوئی مکان ہے اور نہ اس کی کوئی سمت ہے لیکن ہر جگہ ہے یا ہماری رگ جان سے زیادہ قریب ہے اور جس طرف ہم منہ پھیریں گے اس کو موجود پائیں گے“۔
(سبیل الجنان ص 35)

11
فرقہ اہلحدیث مجتہد العصر عبد اللہ روپڑی الجہمی
لکھتے ہیں
” توحید حالی وحدۃ الشہود ہے اور توحید الہی وحدۃ الوجود ہے یہ اصطلاحات زیادہ تر متاخرین صوفیا (ابن عربی وغیرہ) کی کتب میں پائی جاتی ہیں متقدمین کی کتب میں نہیں ہاں مراد ان کی صحیح ہے“۔
(فتاویٰ اہلحدیث  ج 1  ص 153)

12 ناصر الدین البانی  الجہمی
ناصر الدین البانی صاحب کو خود ان کی جماعت نے جہمیہ قرار دیا ہے اور وہ بھی خالص جہمیہ
دیکھئے (حق اتباع باطل کا رد ص 10 )
جو آدمی ساری عمر اپنی جماعت کیلئے اتنا کچھ کرتا رہا اس لامذہب جماعت نے یہ انعام دیا  ہے  اسے۔

فرقہ اہل حدیث کے ایک عالم ڈاکٹر محمد بہاولدین صاحب ایک ایسی بات لکھتے ہیں جو کہ  ان سمیت فرقہ  اہلحدیث کے ہر بندے پر فٹ آتی ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
” بعض (اب سارے ہی ایسے  ہو چکے ہیں)عوام کا لانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب ، بدمذہب ، ضال مضل جوکچھ کہو، زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتےہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں ۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہر ی معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں ۔جس  میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسرے کو بھی گمراہ کرتے ہیں“۔(تاریح اہل حدیث صفحہ ۱۶۴)

عقائدمیں تو اجتہاد کی بھی گنجائش نہیں یا تو آج کے غیرمقلد گمراہ ہیں یا پھر کل کے ان کے یہ تمام بڑے بڑے بزرگ؟
ان میں سے اہل حدیث کون ہے کل والے  یا آج والے؟
کتنے  وکٹورینوں نے ان پر کفر  کا یا کم از گمراہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے؟
آج یہ تمام بزرگ زندہ ہوتے تو اپنے وکٹورین ٹولے پر ضرور گمراہی کا فتویٰ دے دیتے ۔
کیا یہ قرآن  و حدیث سمجھنے سے محروم تھے کیا   آج کے غیرمقلدوں کو ان سے زیادہ قرآن و حدیث آتا ہے؟
…..

image

image

image

image

image

image

image

image

image

image

image

image

image

image


Taqleed ke Silsile Men Musalim u Suboot ke ibarat Se Gair Muqallideen (Naam Nihad Ahle Hadees) ka Dhoka

 

بعض جهلاء غيرمقلدين اپنے مولويوں كي بے دليل فتووں پر عمل كرتے هوئے يا محدثين كے راويوں پر كلام كو بنا كسي دليل كے ليتے هيں اور تقليد كا عملا ارتكاب كرتے هيں تو خود اعتراض سے بچنے كے ليے مسلم الثبوت كي عبارت كے پيچهے چهپنے كي ناكام كوشش كرتے هيں ،، حالانكه جهاں ايك طرف مسلم الثبوت كي عبارت ان كے كسي كام كا نهيں جيسا كه هم انشاء الله واضح كريں گے تو دوسري طرف ايك غيرمعصوم امتي كي بات كو جو حنفي المسلك هونے كي بنا پر ان وكٹورينز كے فتوے كے نيچهے هميشه هوتا هے اس كي بات مان كر يه بات بذات خود تقليد كا ارتكاب كرليتے هيں تو تقليد سے بچنے كے ليئ بهي تقليدي راسته اختيار كيے هوئے هيں ،،،،،،،، اب هم صاحب مسلم الثبوت كي عبارت اور اس كا مفهوم لكهتے هيں ،،،،تو علامه محب الله بهاري ؒ لكهتے هيں التقليد العمل بقول الغير من غيرحجة ،، كه تقليد كسي غير كي بات كو [ جس كي بات حجت شرعي نه هو ، جيسا كه الله تعالي ، اس كے رسول اور تمام امت كي اجماع ]اس بات كو بلامطالبه دليل ماننے كو كهتے هيں ،،كاخذ العامي والمجتهد من مثله فالرجوع الي النبي عليه الصلوة والسلام او الي الاجماع ليس ،منه وكذا العامي الي المفتي والقاضي الي العدول لايجاب النص ذلك عليهما ،،، يعني اس كي مثال جيسا كه عامي مجتهد سے كوئي بات لے [كر عمل كرے ] يا مجتهد اپنے جيسے مجتهد كے كسي بات پر عمل كرے ،،،پس نبي صلي الله عليه وسلم كي طرف رجوع اور اجماع كي طرف رجوع اس [تقليد ] ميں سے نهيں هے ۔۔۔ اور اسي طرح عامي كا مفتي كي طرف رجوع كرنا اور قاضي كا عدول يعني سچے گواهوں كي طرف رجوع كرنا بهي تقليد ميں سے نهيں كيونكه يه تو ان پر نص نے واجب كيا هے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،عبارت پر غور كرنے سے كئي باتيں سامنے آجاتي هيں : تقليد كي مثال انهوں نے دي كاخذالعامي يعني مجتهد كي بات پر عامي كا عمل كرنا ،، يهاں اخذ يعني كوئي بات لے كر عمل كرنے كو تقليد كها ،، اور رجوع العامي الي المفتي كو تقليد سے خارج كها يعني محض مفتي كي طرف مسئله لوٹانا اور اس سے سوال كرنا تقليد نهيں اس ليے كه اس سوال كا حكم قران ميں واضح طور پر منصوص هے جيسا كه فرمايا فاسئلوا اهل الذكر ،، تو لاعلمي كے وقت سوال كرنا منصوص عليه مسئله هے جس پر عمل كرنا تقليد نهيں ليكن سوال كرنے كے بعد اگر مجتهد بنا دليل بتائے كوئي مسئله بتائے اور عامي اس پر اخذ يعني عمل كرے تو وه تقليد هے كيونكه تقليد كا تعلق عمل سے يعني اس فتوے پر عمل كرنا جو مفتي بتلادے اور سائل دليل كا مطالبه نه كرے ،، يا اس مسئلے كي دليل هي اتني غامض اور دقيق هو جو سائل كے فهم سے باهر هو تب مفتي دليل تفصيلي بتائے بغير اسے محض مسئله بتائے اور عامي اس پر عمل كرے تو يه تقليد هوگيا ،، تو تقليد كا تعلق سوال سے نهيں بلكه سوال كے بعد مفتي كے بتائے هوئے مسئلے پر عمل سے هے اور يه دونوں باتيں اس عبارت بلاغبار واضح هوتي هيں ،، ليكن غيرمقلد سوال كے بعد فتوے پر عمل كو بهي تقليد سے خارج بتاتے هيں جو كه مسلم الثبوت كي عبارت كے خلاف هے لهذا يه بے چارے اس مسئلے ميں خود تو كوئي دليل نهيں ركهتے اور هماري كتاب سے جو بهيك مانگ كر دليل بنائي اس ميں بهي تحريف كركے هي اپني دوكان چلارهے هيں جو كه واضح تحريف هے ،،، اور يهي بات شارح نے فواتح الرحموت ميں بهي لكهي هے ،،،جيسا كه فرمايا : وكذاالعامي الي المفتي والقاضي الي العدول ]ليس هذا الرجوع نفسه تقليدا وان كان العمل بما اخذوا بعده تقليدا ،،،، يعني محض عالم كي طرف يه رجوع تو تقليد نهيں اگرچه [رجوع كے بعد ] جس [فتوے ] پر يه عمل كرے وه عمل تقليد هوتا هے ،،، تو واضح هوا كه بےچارے تقليد كو شرك كهتے كهتے جب خود تقليد كرليتے هيں تو انهيں مسلم الثبوت كے سائے ميں هرگز پناه نهيں ملے گي ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ياد رهے اگر عالم كي بات ماننا تقليد نهيں تو فقه حنفي كے مسائل سب علماء نے هي لكهے هيں ،، پهر هم اگر وكٹورينز كي بات مان ليں تو چلو كوئي بهي حنفي مقلد نهيں اور آل وكٹوريه پهر جتني بهي تقليد كے خلاف بكتي رهے اس اكا اثر هم پر نهيں هوگا ،،،

اس پر ایک اعتراض کا جواب.. کہ جب تقلید کا تعلق محض سوال سے نہیں تو ہم فاسئلوا اھل الذکر  سے تقلید پر استدلال کیوں کرتے ہیں
..
جواب یہ ہے کہ قران میں  اھل علم سے پوچھنے کا حکم ان کے فتوے پر عمل کی خاطر ہے اس لیے اس سوال کا مآ ل (یعنی نتیجہ و آخر الامر) اس  پر عمل تک ہی لے جاتی ہے لہذا  یہ امر محض  سوال کرنے کا نہیں  بلکہ  اس میں التزاما عمل شامل ہے لہذا  باعتبار مآل ہم  اس سے تقلید پر دلیل پکڑتے ہیں
ورنہ علماء سے محض مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل سے انکار کرنے والا عامی نہ ہمارے نزدیک تقلید کرنےوالا ہوا . اور نہ  اس نے قران پر عمل کیا


*امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اہل حدیث ہونا خود غیر مقلدین کے گھر سے *

 

*امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اہل حدیث ہونا خود غیر مقلدین کے گھر سے *

غیر مقلدین کے مناظر جماعت اور جامعہ سید نذیر حسین محدث دہلوی کے ناظم تعلیمات فضیلة الشیخ رضاء اللہ عبدالکریم صاحب مدنی اپنی کتاب

احباب دیوبند کی جماعت اہل حدیث پر کچھ تازہ کرم فرمائیاں
کے صفحہ ٢٨/ پر
اجمالی جواب کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:

چاروں امام بھی ہماری جماعت کے تھے وہ بھی قرآن وحدیث ہی کو مانتے تھے …( ہم) ان کو اہل حدیث مانتے ہیں۔
اسی طرح غیر مقلدوں کے شیخ العرب والعجم ابومحمد بدیع الدین
شاہ راشدی صاحب فرماتے ہیں: ہم کسی بھی امام کو قرآن و حدیث کے خلاف ثابت نہیں کرتے۔ پھر تھوڑا آگے چل کر امام ابوحنیفہ کے قول “اِذٙا صٙحّٙ الْحٙدِيْثُ فٙهُوٙ مٙذْھٙبِیْ” کو نقل کر کے فرماتے ہیں : اس قول کے مطابق تو یہ ہمارا
مذہب ہوا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہمارے اہل حدیث ہوۓ۔ (حق و باطل عوام کی عدالت میں صفحہ ٢١ و ٢٢) اور غیر مقلّد عالم محمد ابو القاسم سیفی بنارسی اپنی کتاب “مسلک اھل حدیث پر ایک نظر” کے صفحہ ١٦ / پر لکھتے ہیں: امام اعظم اہل حدیث تھے اور دوسروں کو اہل حدیث بناتے تھے۔

اب علمائے غیر مقلدین سے سوال ہے کہ جب ائمہ اربعہ اہل حدیث اور قرآن وسنت کے متبع تھے

تو ان کے مقلدین کیوں اہل حدیث نہیں؟ ؟؟؟؟

اور وہ ان کی اتباع اور تقلید کرنے کے باوجود کیسے قرآن وسنت کے مخالف اور دشمن ہوگئے؟ ؟؟؟؟؟

قارئین کرام! یہی رضاء اللہ عبدالکریم مدنی صاحب اپنی اسی کتاب کے صفحہ ٢٨/ پر لکھتے ہیں کہ:
ہم ان سب( امامان دین، صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدینؓ) کی وہی باتیں مانتے ہیں جو قرآن وحدیث کے مطابق ہوتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہرکس وناکس. ہرعالم وجاہل کو معلوم کیسے ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے اور فلاں مسئلہ مخالف ہے ؟

کیا ہرکس وناکس جو ابجد هوّز سے بھی ناواقف ہو اور جو کبھی کبھی سلفی کو سالف کی جمع لکھ دیتا ہو
وہ قرآن وحدیث کی موافقت اور مخالفت کو پہچان سکتا ہے؟ ؟؟؟

منجانب: (اے آئ آئ سی ) —
..

image


رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات‎.

 

رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات‎.
رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ هدی کے مابین اختلاف ہے اور دور اول یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئ ہیں لہذا جس مجتهد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کوزیاده بہتر وراجح سمجها اس کو اختیارکیا اورکسی بهی مجتهد نے دوسرے مجتهد کے عمل واجتهاد کو باطل وغلط نہیں کہا۔
اور یہی حال ان مجتهدین کرام کا دیگراختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتهہ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ امام شافعی رحمه الله امام مالک رحمه الله کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتهادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتی کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ وشاگرد کا اجتهاد مختلف ہے امام شافعی رحمه الله رفع یدین کے قائل ہیں اورامام مالک رحمه الله رفع یدین کے قائل نہیں۔
رفع یدین کے بارے مذاهب اربعہ کی تصریحات1 =
احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہےفتاوی شامی میں ہےقوله إلا في سبع ) أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخرد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها
2 = مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولی ہے ،مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے ، ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ) المدونة الكبرى للإمام مالك ص 107 – دار الفكر بيروت امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں .
امام مالك رحمه الله کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا الخیاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہےعلامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتهدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں۔
وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك ” الی ان قال ” والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخبداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی
علامہ عبد الرحمن الجزيري نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہےالمالكية قالوا: رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ الفقه على المذاهب الاربعة ‘ لعبد الرحمن الجزيري ‘ الجزء الاولكتاب الصلاة باب رفع اليدين
3 = شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہےقال سألت الشافعي: أين ترفع الأيدي في الصلاة؟ قال: يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله ” سمع الله لمن حمده ” حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخكتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاةقال الشافعي ) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو مأموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه .كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة
4 = حنابله کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے۔مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه .كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي ، كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاة۔
رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 441 میں فرماتے ہیں کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں۔اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونو مروی ہے. ( فتاوی نذیریہ جلد 1 صفحہ 444)
مولانا ثناء اللہ امرتسری کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)
اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608)
نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔۔”رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(روضہ الندیہ, صفحہ 148)1ور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پرلکھتے ہیں سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔یعنی اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں
الشیخ عبدالعزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی اعظم سعودی عرب فرماتے ہیں:السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته اه”تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے۔(مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)
نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا کہنا ہے:وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة”رفع الیدین کرنا سنت ہے، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے”(مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص 169)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سجدوں کا رفع یدین)
سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا: غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ْْ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے۔” ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131)
جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟
یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا: علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں۔ ّ”امام احمد اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں،
چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر امام احمد سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین انس، ابن عمر، نافع، طاؤس، حسن بصری، ابن سیرین اور ایوب سختیانی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے”۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142)
یہاں علامہ البانی رح نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔ غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور ست اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟
غیر مقلدین کے مشہور عالم مولانا رئیس ندوی صاحب امام بخاری کی کتاب جزء رفع الیدین سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سجدوں کی رفع یدین ذکر کرنے کے بعد اس کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ
”اس حدیث معتبر کا واضح مفاد یہ ہے کہ پہلییا دوسری، تیسری یا چوتھی رکعت کی قید کے بغیر علی الاطلاق ابن عمر رضی اللہ عنہ جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے ،اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ ہر سجدہ سے اٹھتے وقت موصوف ابن عمر رضی اللہ عنہ رفع یدین کرتے تھے ۔۔۔ اس حدیث کا لازمی مطلب ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سجدہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے اور اسکے علاوہ اس حدیث کا کوئی دوسرا معنی و مطلب بتانا خلافِ ظاہر ہے” ( رسول اکرم ﷺ کا صحیح طریقہ نماز۔ صفحہ 361)
اسی صفحہ پہ آگے جا کر لکھتے ہیں کہ ” ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جو بعض روایات منقول ہیں کہ وہ خود اور نبی کریم ﷺ بوقت سجدہ رفع یدین نہیں کرتے تھے تو اسکا مطلب صرف اس قدر ہے کہ کبھی کبھار بعض مرتبہ سجدہ کے وقت ابن عمر رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے تھے”( رسول اکرم ﷺ کا صحیح طریقہ نماز۔ صفحہ 361)
تو غیر مقلدین کے ان مستند عالم رئیس ندوی صاحب کی ان باتوں سے ثابت ہوا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں کا رفع یدین صحیح سند سے مروی ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ اکثر سجدوں کا رفع یدین کرتے تھے اور کبھی کبھار سجدوں کا رفع یدین ابن عمر رضی اللہ عنہ ترک کرتے تھے۔
اسی کتاب میں آگے جا کے موصوف لکھتے ہیں کہ ”بوقت سجدہ کا رفع یدین جس کو امام بخاری محفوظ کہہ رہے ہیں اسکے بنیادی رواہ میں سے نافع،طاؤس، ایوب سختیانی،مجاھد، عطاء،سالم، عبداللہ بن دینار،قیس بن سعد، حسن بن مسلم، حسن بصری وغیرہ بھی ہیں اور یہ سارے کے سارے حضرات بوقت سجدہ بھی تحریمہ و رکوع کے وقت کی طرح رفع یدین کرتے تھے۔ظاہر ہے کہ ان حضرات کے نزدیک اگر بوقت سجدہ رفع یدین والی حدیث محفوظ نہ ہوتی تو یہ اساطین علم و دین ہوتے ہوئے بوقت سجدہ رفع یدین نہ کرتے۔” ( رسول اکرم ﷺ کا صحیح طریقہ نماز۔ صفحہ 370)
علامہ رئیس ندوی کے اس حوالے سے ثابت ہوا کہ ابن عمر رضی اللہ سمیت یہ تمام تابعین اوراکابرین سجدوں میں بھی تحریمہ اور رکوع کی طرح رفع یدین کرتے تھے اور امام بخاریؒ کے نزدیک سجدوں کے رفع یدین کی حدیث محفوظ ہے۔
اور مولانا ندوی صاحب کے ان حوالوں میں اہم بات یہ ہے کہ غیر مقلدین جو اپنی دلیل میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی رفع یدین کی روایات بخاری اور مسلم سے پیش کرتے ہیں ان کے راوی سالمؒ اور خود ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں سجدوں میں رفع یدین کرتے تھے جن کے یہ غیر مقلدین منکر ہیں۔
میرا غیر مقلدین سے سوال ہے کہ وہ سجدوں کے اس رفع یدین کو کیوں نہیں کرتے جو امام بخاریؒ کے نزدیک بھی مستند ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ اور رفع یدین کی احادیث کے مرکزی راویوں سے ثابت ہے؟؟؟
غیر مقلدین کا رفع یدین کو سنت مؤکدہ تسلیم کرنے سے انکار
غیر مقلدین کے عالم سے کسی نے سوال کیا کہ رفع یدین سنت مؤکدہ ہے یا نہیں تو انہوں نے اس کا جواب میں رفع یدین کے سنت ہونے کی دلیل کی بجائے علامہ ابن قیمؒ کے حوالہ سے کہہ دیا کہ رفع یدین کرنے اور نہ کرنے والے پہ کوئی ملامت نہیں یہ سب اقسام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔( فتاوی علمائے اہلحدیث، جلد 3 صفحہ 151،152)
اگر رفع یدین سنت ہوتا تو غیر مقلد عالم تسلیم کر لیتا کہ رفع یدین سنت ہے لیکن اس کا تسلیم نہ کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ خود غیر مقلدین کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ رفع یدین سنت ہے یا نہیں؟
یہی فتوی محدچ فتاوی پہ بھی موجود ہے۔
موجودہ غیر مقلدین جو رفع یدین نہ کرنے والے پہ اعتراض کرتے ہیں ان سے گزارش ہے رفع یدین ترک کرنے والوں پہ کوئی ملامت نہیں اور ترک رفع یدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے اس بات کو تو تمہارے اکابر علماء نے تسلیم کر لیا ہےلیکن تم خود پہلے رفع یدین کو سنت تو تسلیم کر لو احناف پہ ترک رفع یدین کا اعتراض بعد میں کرنا۔
http://www.urdufatwa.com/index.php…
غیر مقلد عالم عبدالمنان نور پوری سےکسی نے سوال کیا تھا کہ رفع یدین فرض ہے یا سنت تو جواب دیا گیا کہ ” فرض اور سنت کی وضاحت کسی حدیث میں نہیں آئی”( قران وحدیث کی روشنی میں احکام و مسائل،جلد1،ص179)
پس اہلحدیث کے اس فتوی سے ثابت ہوا کہ رفع یدین نہ فرض ہے اور نہ ہی سنت ورنہ جواب دیتے وقت بتا دیا جاتا کہ رفع یدین سنت ہے یا فرض۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر فرض اور سنت کی وضاحت کسی حدیث میں نہیں آئی تو پھر غیر مقلدین کو کیا علم کہ نماز میں فرض کون سا ہے اور سنت کون سی؟؟؟
اگر رفع یدین نہ فرض ہے اور نہ سنت تو پھر رفع یدین ہے کیا؟؟؟؟
ترک رفع یدین پہ فتوی لگانے والے غیر مقلدو! پہلے خود تو فیصلہ کر لو کہ نماز میں رفع یدین کی کیا حیثیت ہے؟؟رفع یدین تمہارے نزدیک سنت ہے یا نہیں؟؟؟
یہی فتوی غیر مقلدین کی ویب سائٹ محدث فتاوی پہ بھی موجود ہے۔
غیر مقلد عالم رئیس ندوی کا دعوی کہ نماز میں رفع یدین فرض و واجب ہے۔ہے کوئی غیر مقلد جو رئیس ندوی کے اس دعوے کی دلیل دے؟؟
غیر مقلد عالم رئیس ندوی کا دعوی ہے کہ نماز میں رکوع کو جھکتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کرنا فرض و واجب ہے۔۔۔۔۔ نہ کرنیوالے کی نماز باطل ہے۔(مجموعہ مقالات، صفحہ 246) رئیس ندوی صاحب نے اپنے اس دعوے پہ قران و حدیث سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔دوسری طرف مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 441 میں فرماتے ہیں کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں۔اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونو مروی ہے. ( فتاوی نذیریہ جلد 1 صفحہ 444)مولانا ثناء اللہ امرتسری کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)غیر مقلد عالم عبدالمنان نور پوری سےکسی نے سوال کیا تھا کہ رفع یدین فرض ہے یا سنت تو جواب دیا گیا کہ ” فرض اور سنت کی وضاحت کسی حدیث میں نہیں آئی”( قران وحدیث کی روشنی میں احکام و مسائل،جلد1،ص179)
جبکہ غیر مقلد عالم عبدالغفار محمدی کے نزدیک نماز کے فرائض، سنن اور مستحبات وغیرہ سب بدعت ہیں”ـ (350 سوالات، صفحہ 125)
تو رئیس ندوی صاحب اپنے ہی عالم عبدالغفار محمدی کے نزدیک رفع یدین کو فرض و واجب کہہ کر بدعتی ہوئے۔۔غیر مقلدرئیس ندوی کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہوا کہ رفع یدین فرض ہے۔آج تک غیر مقلدین خود اس بات پہ متفق نہیں ہو سکے کہ رفع یدین فرض ہے، واجب ہے، سنت ہے یا مستحب ہے؟؟؟کیا کوئی غیر مقلد اپنے عالم رئیس ندوی کے اس دعوے کی دلیل دے سکتا ہے کہ رفع یدین فرض و واجب ہے؟؟؟؟
غلامِ خاتم النبیین ﷺمحسن اقبال

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Meks Ads