اماموں نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کرو ہمارا بھی عمل یہی ہے
اذ اصح الحديث فھو مذہبی
(وسوسہ: اماموں نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کرو ہمارا بھی عمل یہی ہے)
:امام نوویؒ نے اپنی کتاب (المجموع ) کے مُقدمہ میں اس کا جواب دیا ہے
وهذا الذي قاله الشافعي ليس معناه أن كل واحد رأى حديثًا صحيحًا قال: هذا مذهب الشافعي، وعمل بظاهره وإنما هذا فيمن له رتبة الاجتهاد في المذهب الخ
یعنی یہ جو امام شافعی رحمہ الله نے کہا ہے کہ (اذا صح الحديث فھو مذہبی) اس کا یہ معنی ومطلب نہیں ہے کہ ہرایک آدمی جب صحیح حدیث دیکھے تو یہ کہے کہ یہ امام شافعی رحمہ الله کا مذہب ہے اور پھرظاہر حدیث پرعمل کرے بلکہ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو مذہب میں اجتہاد کا درجہ رکهتا ہو ۔
یہی بات حافظ ابن الصلاح امام شامی وغیرھما ائمہ نے بھی کی ہے کہ امام شافعی وغیره ائمہ کا یہ قول عامۃ الناس کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنے مذہب کے اصحاب وتلامذه کے لئے ہے جو مجتہد فی المذہب کا درجہ رکھتے ہوں ۔
امام ذہبیؒ کا ارشاد عالیشان
حافظ ابن حزمؒ ظاہری کا قول ہے کہ میں اجتہاد کرتاہوں کسی مذہب خاص میں مقید نہیں حق کی پیروی کرتا ہوں ابن حزم ؒکے اس قول کا رد کرتے ہوئے امام ذہبیؒ فرماتے ہیں۔
میں کہتاہوں جو شخص اجتہاد کے رتبہ کو پہنچ چکا ہو اور س کے حق میں چند ائمہ نے شہادت بھی دے دی ہو اس کے لئے تقلید جائز نہیں ہی۔
جس طرح کوئی عامی یا فقیہ مبتدی جس نے قرآن یا اس کا زیادہ حصہ یاد کر لیا ہے اس کے لئے اجتہاد جائز نہیں۔ بھلا وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ اور کیسے کوئی رائے قائم کرے گا؟ اور کس بل پر اپنے مذہب کی عمارت کھڑی کرے گا اور کیسے میدان اجتہاد میں پرواز کرے گا جب کہ اس کے پر بھی اُگے نہ ہوں۔
تیسری قسم: وہ فقیہ منتہی بیدار مغز سمجھ دار محدث ہے جس کو فروع میں کوئی مختصر یاد ہو اور قواعد الاصول میں کوئی کتاب یاد ہو اور نحو یاد ہو اور کمالات میں ایک حصہ کا مالک ہو ساتھ ہی اللہ کی کتاب حفظ اور اس کی تفسیر کا مشغلہ رکھتا ہو اور بحث و تحقیق کی صلاحیت رکھتا ہو تو یہ مرتبہ اس شخص کا ہے جو اجتہاد مقید (یعنی اجتہاد فی المذہب ) کو پہنچا ہے اور اماموں کے دلائل میں غور کرنے کا اہل ہی۔
تو ایسے شخص کے نزدیک جب کسی مسئلہ میں حق واضح ہو جائے اور اس میں کوئی نص ثابت ہو جائے جس ہر ائمہ علام میں کسی کا عمل بھی ہو مثلاً امام ابو حنیفہ یا جیسے امام مالک یا سفیان ثوری یا امام اوزاعی یا امام شافعی اور ابو عبید یا امام احمد اور امام اسحاق تو اب اس مسئلہ میں حق کی پیروی کر سکتا ہے ، لیکن رخصتوں کی راہ نہ اپنائے بلکہ تورع سے کام لے اور اب اس مسئلہ میں حجت قائم ہو جانے کے بعد اس کے لئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے تاہم اگر اپنے فقہاء کے شور و شغب سے خطرہ محسوس کرتا ہو تو اس دلیل کو راز میں رکھے اور اس پر عمل کرکے نمائش نہ کری، کیوں کہ بسا اوقات خود فریبی کا شکار ہو جائے گا اور شہرت پسند بن بیٹھے گا اور سزا بھگتنی پڑے گی اور اس کا نفس اس پر غالب ہو جائے گا بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے کلمہ حق بولا اور امر بالمعروف کی لیکن ان کی بدنیتی اور دینی قیادت پسندی کی وجہ سے اللہ نے ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کر دیا جنہوں نے ان کو تکلیف پہنچائی پس یہ ایک خٖفی بیماری ہے جو علماء کے نفس میں گھسی ہوئی ہی۔
اور جوشخص علم کی طلب مدارس اور افتاء کے عہدوں اور فخر وریا کے لئے کرتا ہے وہ حماقت کا شکار اور فریب خوردہ بنا اور لوگوں کی عیب جوئی میں پڑا غرور نے اس کو ہلاک کیا اور لوگوں کی عداوت کا نشانہ بنا۔ قد افلح من زکاھا وقد خاب من دساھا.
علامہ ابن قیمؒ حنبلی کی رائے عالی
ابو عمرو بن صلاح سے منقول ہے :
اگر کوئی شخص کسی حدیث کو اپنے مذہب کے خلاف پائے تو اگر اس میں مطلق اجتہاد یا اجتہاد فی المذہب یا اس نوع میں اجتہاد یا خاص ا س مسئلہ میں اجتہاد کی مکمل اہلیت ہو تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے ، لیکن اگر اہلیت مکمل نہ ہو اور اپنے دل میں حدیث کی مخالفت سے قلق اور گرانی محسوس کرے جب کہ تلاش و تحقیق کے بعد بھی اس کی مخالفت کے لئے کوئی جواب شافی نہ پا سکا ہو تو پھر غور کرے کہ اس حدیث پر کسی مستقل (مجتہد مطلق) امام کا عمل ہے یا نہیں اگر کسی مستقل امام کا اس پر عمل ہے تو اس حدیث میں اسی امام کے مذہب پر عمل کر لے اور یہ اس لئے اپنے امام کے مذہب کو چھوڑ دینے کے لئے صرف اس مسئلہ میں ایک عذر ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
امام ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ امام نووی نے ابن صلاح کے اس قول کی تحسین کی ہے اور بلا تنقید برقرار رکھا ہے ۔ (عقد الجید ص۴۴) ط
امام ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ کا فرمان ذیشان:
حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہی۔
اس پر رد کرتے ہوئے اما م ذہبی فرماتے ہیں:۔
(میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالک یا امام سفیان یا امام اوزاعی اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ حدیث ثابت اور ہر علت سے پاک بھی ہو نیز یہ بھی شرط ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے پاس دلیل میں کوئی دوسری صحیح حدیث اس حدیث کے خلاف نہ ہو لیکن اگر کوئی کسی صحیح حدیث پر اس طرح عمل کرتا ہے کہ اس حدیث کے خلاف تمام ائمہ اجتہاد جمع ہوں تو ایسی صورت میں ہر گز اس حدیث پر عمل جائز نہیں۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی ج ۶۵۰۴)
اس کے بعد اما م ذہبی نے اپنے قول کے دلائل جمع فرمائے ہیں۔
حافظ ابن رجبؒ حنبلی کا ارشاد گرامی
ائمہ دین اور اہل حدیث فقہاء کرام حدیث صحیح کی پیروی کرتے ہیں چاہے جہاں بھی موجود ہو بشرطیکہ وہ حدیث صحابہ اور ان کے بعد والوں کے نزدیک معمول بہ ہو یا ان میں ایک جماعت کے نزدیک معمول بہ ، لیکن وہ حدیث جس کے ترک پر سلف میں اتفاق ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ انہوں نے اس کو متروک نہیں قرار دیا مگر یہ کہ ان کے پاس اس بات کا علم ہے کہ وہ حدیث معمول بہ نہیں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں رائے میں رائے میں سے صرف اس کو لے لو جو تم سے پہلے والوں موافق ہو کیوں کہ ہو تم سے زیادہ علم والے تھی۔ (بیان فضل علم السلف علی علم الخلف تصنیف ابن رجب حنبلی متوفی ۵۹ ص۷۵)
امام احمد بن حنبلؒ کی نصیحت
اگر کسی کے پاس ایسی کتابیں ہوں جن میں رسول اللہ ؐ کے ارشادت نیز صحابہ و تابعین کے اختلاف جمع کئے گئے ہیں تو اس کے لئے ہر گز جائز نہیں کی جیسے چاہے عمل کر لے اور جو پسند ہو اس کے مطابق فیصلہ یا عمل کر لے تا وقتیکہ اہل علم سے معلوم نہ کرلے کہ کس قول کو اختیار کرنا چاہیے تا کہ عمل صحیح امر پر ہو سکی۔ (اعلام المعوقین تصنیف ابن قیم ج۱ص۴۴)
امام جلیل فقیہ ابو الحسن میمونؒ کا ارشاد مبارک
امام احمد بن حنبل نے مجھ سے فرمایا اے ابو الحسن تم کسی ایسے مسئلہ میں گفتگو سے پرہیز کرو جس میں تمہارا کوئی امام نہ ہو ۔
مناقب الامام احمد تصنیف ابن الجوزی ص ۸۷۱ اور مسودہ لال ابن تیمیہ ص ۱۰۴ و ۴۸۴ اور سیر اعلام النبلاء للذہبی ج ۱۱ ص ۶۹۲)
امام برہان الدین ابرہیمؒ بن علی المالکیؒ (المتوفٰی ۷۹۹ھ) حضرات ائمہ اربعہؒ اور دیگر ائمہ کرام ؒ کا اور ان کے مقلدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
وغلب مذھب الا وزاعی رحمہ اللہ تعالٰی علٰی الشام و علٰی جزیرۃ الاندلس الٰی ان غلب علیھا مذھب مالکخ بعد المائتین فانقط و اما مذھب الحسنؒ الژوریؒ فلم یکثت اتباعھما ولم یطل تقلید ھما و انسقطع مذھبا عن قریب الٰی ان قال واما اصحاب الطبریؒ والی ثو رؒفلم یکثر واولا طالت مذتھم وانقطع اتباع ابی ثورؒ بعد ثلا ثمأۃ و اتباع الطبریؒ بعد اربعمالۃ واما داؤدؒ فکشر اتباعہ وانتشر بیلاد بغد او بلا وفارس مذھب وقال بہ قوم قلیل بافریقۃ والا ندلس و ضعف الا ن فھؤ لاء الذین وقع اجماع الناس علٰی تقلید ھم مع الا ختلاف فی اعیافھم و اتفاق العلماء علیٰ اتباعھم والا قتدء بمذاھبم ودرس کتبھم التفقہ علٰی مأ خذھم ودرس کتبھم والتفقہ علٰی مأخذھم والبناء علٰی مأ خذھم والنبیاء علٰی قواحد ھم والتفریع علٰی قواعدھم والتفریع علٰی اصولھم دون غیر ھم لمن تقد مھم ا و عاصرھم للعلل التی ذکر نا ھا وصا ر الناس الیوم فی اقطار الا رض علٰی خمستہ مذاھب مالکیۃ و حنبلۃ و شافعیۃ و حنفیۃ و داؤدیۃ وھم المعروفون المعرودون بالظاھریۃ
“کہ شام اور جزیرہ اندلس میں حضرت امام او زاعی ؒ کا مذہب غالب تھا اور دوصدیوں کے بعد ان کا مذہب ختم ہو گیا ۔ اور وہاں حضرت امام مالکؒ کا مذہب غالب ہو گیا اور امام حسن بصریؒ اور امام سفیان ثوریؒ کے پیروکار زیادہ نہ تھے اور نہ ان کی تقلید کا زمانہ لمبا تھا بلکہ جلدی ہی ان کا مذہب ختم ہو گیا (پھر آگے فرمایا) باقی رہے امام طبریؒ اور امام ابو ثورؒ کے مقلد تو یہ بھی زیادہ نہ تھے اور نہ ان کی تقلید کا زمانہ لمبا تھا اور امام ابو ثورؒ کے مقلد تیسری صدی کے بعد اور امام طبریؒ کے پیروکار چوتھی صدی کے بعد ختم ہو گئے اور امام داؤد ظاہریؒ کے اتباع زیادہ تھے اور بغداد اور فارس کے شہروں میں ان کا مذہب پھیلا اور افریقہ اور اندلس میں کچھ تھوڑے سے لوگ بھی ان کے مسلک پرتھے اور اب وہاں بھی یہ مذہب کمزور ہو گیا ہے پس یہ وہ حضرات ائمہ کرامؒ ہیں کہ باوجود ان کی شخصیتوں میں اختلاف کے لوگوں کا ان کی تقلید پر اجماع ہے اور سب علماء کا اتفاق ہے کہ ان کی پیروی اور ا ن کے مذہب کی اقتداء کی جائے اور ا ن کی کتابیں پڑھی جائیں اور ان کے دلائل پر فقہ کی بنیاد ریکھی جائے اور ان کے قواعد کو مبنٰی قرار دیا جائے اور صرف انہیں کے اصول پر تفریعات کی جائیں نہ کہ دوسروں کے اصول پر دوسرے خواہ ان سے پہلے ہوں یا ان کے معاصر ہوں، ان اسباب کی وجہ سے جن کا ذکر ہم نے کر دیا ہے اور اب تو تمام اطراف عالم میں پانچ ہی مذہب ہیں مالکی ، حنبلی ، شافعی، حنفی، اور داؤدی جو ظاہری مشہور ہیں”۔ (الدیباج المذہب ص13)
اس عبارت سے بھی واضع ہوا کہ باقی حضرات ائمہ کرامؒ کی نہ تو کُتب باقی رہیں نہ مقلد رہے اس لیے ان کی تقلید کو فروغ حاصل نہ ہو سکا بخلاف ان پانچ مذاہب کے جن کا تذکرہ ہوا کہ دُنیا کے بیشتر علاقوں میں یہی پائے جاتے ہیں اور لوگ انہیں کے پیرو ہیں اور جن جن ملکوں اور علاقوں میں وہ پائے جاتے ہیں ان کا بھی انہوں نے قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو الدیباج المذہب ص12،13) گو انکی تحقیق میں اہل الظاہر موجود تھے لیکن علامہ ابن خلدونؒ کی تحقیق سے وہ بھی مٹ گئے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ :۔
ثم درس مذھب اھل الظامر الیوم بدروس ائمتہٖ
“اب اہل الظاہر کا مذہب باقی نہیں رہا اس لیے کہ اس مذہب کے ائمہ مٹ گئے”۔
علامہ ابو عبداللہ محمدؒ بن ابراہیم الوزیرالیمانیؒ (المتوفٰی ۷۷۰ھ) مقلدین کا ذکر کرتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ :۔
لان الا حاطۃ باعمال المقلدین متعذرۃ مع انتشارھم فی اقطار الاسلام شرقاً و غرباً و شاماً و یمناً اھ
“مقلدین کے اعمال کا احاطہ کرنا مشکل ہے اس لیے کہ وہ تمام اسلامی ممالک میں مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں پھیلے ہوئے ہیں”۔
(الروض الباسم فی الذّب عن سنۃ ابی القاسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ص115ج1)
اس عبارت سے مقلدین کی کثرت اور کل جہاں میں پھیلا ؤ روز روشن کی طرح واضح ہے۔
اسلامی ممالک اور باقی ملکوں میں مقلدین :۔
اس وقت دنیا میں تقریبا! ایک ارب سے زیاد ہ مسلمان بیان کیے جاتے ہیں اور ان میں اکثریت مقلدین کی ہے اور ا ن میں بھی علیٰ الخصوص حنفیوں کی اکثریت ہے اور پہلے بھی تھی۔
چنانچہ علامہ ابن خلدونؒ فرماتے ہیں کہ :
“حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مقلد اس وقت عراق ، ہندستان ، چین ماوراء النہر و بلا دالعجم کلھا (عجم کے سب شہروں ) میں پھیلے ہوئے ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون، ص448)
اور مؤرخ دوران، امیر البیان علامہ شکیب ارسلانؒ (المتوفٰی ۱۳۶۶ھ) فرماتے ہیں کہ :
“مسلمانوں کی اکثریت حضرت امام ابو حنیفہؒ کی پیرو اور مقلد ہے یعنی سارے ترک اور بلقان کے مسلمان روس اور افغانستان کے مسلمان چین کے مسلمان ہندستان اور عرب کے اکثر مسلمان شام و عراق کے اکثر مسلمان فقہ حنفی مسلک رکھتے ہیں اور سوریہ (شام) کے بعض اور حجاز یمن ، جشہ ، جاوا، انڈونیشیا اور کروستان کے مسلمان حضرت امام شافعیؒ کے مقلد ہیں اور مغرب کے مسلمان مغربی اور وسط افریقہ کے مسلمان اور مصر کے کچھ لوگ حضر امام مالک ؒ کے مقلد ہیں ا ور عرب کے بعض مسلمان اور شام کے بعض باشندے جیسے نابلس اور دومہ کے رہنے والے حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے مقلدین ۔ ( حاشیہ حسن المساعی ص69)
امام الٰہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ :۔
فی الا خذ بہذہ المذاھب الا ربعۃ مصلحۃ عظیمۃ و فی الا عراض عنھا مقسدہ کبیرۃ الخ
“ان چاروں مذاہب کو لینے میں بڑے مصلحت اور ان سے اعراض کرنے میں بڑا فساد اور خرابی ہے”۔ (عقیدالجید ص36)
اور ہندستان وغیرہ ان علاقوں میں جہاں دیگر حضرات ائمہ کرامؒ کی فقہ اور کتابیں رائج نہیں ہیں ۔ اور ان کی تعلیم و تدریس نہیں ہوتی تو بقول شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے ان علاقوں میں جاہل انسان کے لیے حضرت امام ابو حنیفہؒ کی تقلید واجب اور اس سے نکلنا حرام ہے۔
فان کان انسان جاھلاً فی بلا د الھند الٰی قولہ وجب علیہ ان یقلد بمذہب ابی حنیفۃ و یحرم علیہ الخروج من مذھب الخ
جب کوئی انسان ہندستان (وغیرہ علاقوں ) میں جاہل ہو ( آگے فرمایا ) تو اس کے لیے واجب ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی تقلید کرے اور اس کے لیے اس سے نکلنا حرام ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں۔
لان الناس لم یز الوا من زمن اصحابۃ الٰی ان ظہرت المذاھب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلما ء من غیر نکیر یعتبر
حضرت صحابہ کرام ؓ کے زمانہ سے لے کر مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگ علماء کرام میں سے جس کا بھی اتفاق ہوتا برابر تقلید کرتے رہے اور بغیر کسی قابل اعتبار انکار کے یہ کاروائی ہوتی رہی اگر تقلید باطل ہوتی تو وہ حضرات ضرور اس کا انکار کرتے۔ (عقید الجید ص29)
حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ :۔
“بے شک امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت کی معرفت میں حضرات سلفؒ پر اعتماد ضروری ہے حضرات تابعینؒ نے حضرات صحابہ کرامؓ پر اعتماد کیا اور حضرات تبع تابعین ؒ نے حضرات تابعینؒ پر اعتماد کیا اور اسی طرح ہر دور کے علماء نے اپنے زمانہ سے ماقبل دور کے علماء پر اعتماد کیا اور عقل بھی اس کی خوبی پر دلالت کرتی ہے اس لیے شریعت صرف نقل اور استنباط ہے ہی معلوم کی جاسکتی ہے اور نقل اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک کہ بعد کو آنے والا ہر طبقہ ما قبل کے حضرات سے اتصال کے ساتھ شریعت حاصل نہ کرے ۔ اور جب حضرات سلفؒ کے اقوال پر اعتماد کرنا متعین ہو گیاتو ضروری ہے کہ ان کے وہ اقوال جن پر اعتماد کیا گیا ہو صحیح اسانید سے مروی ہوں او مدونۃ فی الکتب المشہورۃ ہوں۔ یا اگر ان کی اسانید متصل نہ ہوں تو ان کے اقوال مشہور کتابوں میں مدون اور درج ہوں ۔ آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ
ولیس مذھب فی ھذہ الا زمنۃ المتاخرۃ بھذہ الصفۃ الاھذہ المذاھب الاربعُ الخ
اور ان آخری زمانوں میں بحران مذاہب اربعہ کے اور کوئی مذہب اس صفت پر نہیں ہے ۔ (عقدالجید ص31،32)
اور نیز فرماتے ہیں کہ :۔
اور ان آخری زمانوں میں بحران مذاہب اربعہ کے اور کوئی مذہب اس صفت پر نہیں ہے ۔ (عقدالجید ص31،32)
اور نیز فرماتے ہیں کہ :۔
ولما اندرست المذاھب الحقۃ الا ھذہ الاربعۃ کان اتباعھا اتباعاً للسواد الاعظلم والخروج عنھا خروجاً عن السواد الاعظم
جب اب چار مذاہب کے علاوہ دیگر مذاہب حقہ مٹ گئے تو انہی کی اتباع سواد عظم کی اتباع ہو گی اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہو گا۔(عقدالجید ص38)
نیز فرماتے ہیں:
ان ھزہ المذاھب الاربعۃ المدونۃ قد اجتمعت الامۃ او من یعتد بہ منھا علی جواز تقلیدھا الی یومنا ھذا۔ (الانصاف: ص 97)
بے شک ان چاروں مذاہب مدونہ کی تقلید کو امت یا امت میں سے قابل اعتماد لوگوں نے جائز قرار دیا ہے اور اس پر آج تک اجماع ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:
اور پھر یہ بات بھی ہے کہ ہر شخص کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سلوک کا طریقہ یا فقہ کا مذہب یونہی نہیں مل جایا کرتا۔ اللہ کے ہاں اندھیر نہیں، نہ اس کے ہاں کسی چیز میں گڑ بڑ ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ نعمت اسی کو ملتی ہے جو اپنی جبلت سے مبارک اور پاک ہو اور اس کو سات آسمانوں سے ملاء اعلیٰ اور ملاء سافل سے مدد ملے۔ نیز و ہ تدلی اعظم کی مخصوص رحمت سے بہرہ یاب ہو۔ (فیوض الحرمین: ص 173، 172)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
اور ان امور میں سے دوسرا امر جس کے لیے مجھے کہا گیا وہ یہ ہے کہ میں فقہ کے یہ جو چار مذاہب ہیں ان کا پابند رہوں اور ان کے دائرہ سے باہر نہ نکلوں اور جہاں تک ممکن ہو ان سے موافقت پیدا کروں۔ لیکن اس معاملہ میں میری اپنی طبیعت کا یہ حال تھا کہ وہ تقلید سے انکار کرتی تھی اور اسے سرے سے تقلید سے انکار تھا۔ لیکن چونکہ یہ چیز خود میری اپنی طبیعت کے خلاف اطاعت و عبادت کی طرح مجھ سے طلب کی گئی تھی اس لئے مجھے اس سے جائے مفر نہیں تھی۔ بہرحال اس میں بھی ایک نقطہ ہے جس کا میں اس وقت ذکر نہیں کرتا لیکن اللہ کے فضل سے میں اس بات کو پا گیا ہوں کہ میری طبیعت کو کیوں مذاہب فقہ کی تقلید سے انکار ہے اور اس کے باوجود مجھے کس لیے مذاہب فقہ کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔(فیوض الحرمین: ص 172 ، 173)
تیسرے مقام پر لکھتے ہیں:
اس سلسلہ میں اب ہم ایک اور بات کہتے ہیں کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ حنفی مزہب میں ایک عمیق راز ہے۔ چنانچہ میں اس عمیق راز کو برابر غور سے دیکھتا رہا اور میں نے اس میں وہ بات پائی جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ کسی فقہی مذہب کے حق ہونے کا جو دقیق پہلو ہے اس کے لحاظ سے آج اس زمانے میں حنفی مذہب کو باقی مذاہب پر ترجیح حاصل ہے۔(فیوض الحرمین: ص 228، 227)
گو بعض دوسرے مذاہب فقہ،کسی مذہب کے حق ہونے کا جو جلی پہلو ہے اس کے اعتبار سے حنفی مذہب پر ترجیح رکھتے ہیں۔ میں نے اس مضمون میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ حنفی مذہب کا یہی وہ عمیق راز ہے جس کا بسا اوقات ایک صاحب کشف کسی حد تک ادراک کرتا ہے اور اپنے اسی ادراک کی بنا پر وہ حنفی مذہب کو باقی مذاہب فقہ پر ترجیح دیتا ہے اور کبھی کبھی اس صاحب کشف کو اس امر کا الہام بھی ہوتا ہے کہ مذہب حنفی کا سختی سے پابند ہو اور کبھی یہ صاحب کشف رؤیا میں کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جو اسے مذہب حنفی کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ (فیوض الحرمین: ص 337، 336)
جیسا کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری نعمت کے ساتھ باطنی دولت سے بھی نوازا ہوتا ہے وہ فقہ حنفی کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور تاریخ کے مطالعہ سے بھی یہ بات واضح تر ہو جاتی ہے کہ جلیل القدر اولیاء کرام ہر دور میں مذہب حنفی پر ہی رہے ہیں۔ فللہ الحمد
علامہ شعرانیؒ فرماتے ہیں:
جب میں چلتے چلتے ان مراتب کو پہنچ گیا۔ اس وقت میں نے دل کی آنکھ سے شریعت طاہرہ کے اس سرچشمہ کو دیکھا۔ جہاں سے ہر مجتہد کا قول نکلا ہے۔ اور مجتہد کے لئے وہاں ایک ایک نالی بنی ہوئی ہے۔ تب مجھ کو کامل یقین ہوا کہ تمام اقوال علماء برحق کے شریعت ہی شریعت ہیں۔ اور ہر مجتہد حق کو پہچاننے والا ہے اور کوئی مذہب شریعت سے بہ نسبت دوسرے مذہب کے زیادہ قریب نہیں ہے۔ اگرچہ ایک ہزار شخص میرے مقابلے کے لئے جدال کی غرض سے اٹھیں اور کہیں کہ فلاں مذہب کو فلاں مذہب پر ترجیح ہے۔ تو میں دل سے ان کے قول کو ہرگز قبول نہ کروں گا۔ (مواہب رحمانی ترجمہ اردو میزان شعرانی: ص 91، جلد 1)
مزید لکھتے ہیں:
جب باری تعالیٰ نے مجھ پر یہ احسان فرمایا کہ مجھ کو شریعت کے سرچشمہ پر آگاہ کر دیا تو میں نے تمام مذاہب کو دیکھا کہ وہ سب اسی چشمہ سے متصل ہیں اور ان تمام میں سے ائمہ اربعہ کے مذاہب کی نہریں خوب جاری ہیں۔ اور جو مذاہب ختم ہو چکے وہ خشک پتھر بن گئے ہیں۔ اور ائمہ اربعہ میں سب سے زیادہ لمبی نہر حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی دیکھی۔ پھر اسکے قریب قریب احمد بن حنبلؒ کی اور سب سے چھوٹی نہر امام داؤدؒ کے مذہب کی پائی۔ جو پانچویں قرن میں ختم ہو چکا ہے۔ تو اس کی وجہ میں نے یہ سوچی کہ ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم کے مذہب پر عمل کرنے کا زمانہ طویل ہے۔ اور امام داؤدؒ کے مذہب پر تھوڑے دن عمل رہا پس جس طرح امام اعظمؒ کے مذہب کی بنیاد تمام مذاہب مدونہ سے پہلے قائم ہوئی ہے اس طرح وہ سب سے آخر میں ختم ہو گا۔ اور اہل کشف کا بھی یہی مقولہ ہے۔ (میزان شعرانی: ص 107، ج 1)
مزید اپنے مختلف کشائف میں مذاہب فقہ کے بارے میں لکھتے ہیں اور آخر میں اپنے نویں کشف میں فرماتے ہیں:
ہم نے اس مچال میں مجتہدین میں سے صرف ائمہ اربعہ پر اقتصار اس لیے کیا ہے کہ یہی وہ حضرات ہیں جن کے مذاہب کی تدوین ہمارے زمانہ تک ہمیشہ رہی ہے۔ اور امت کو آپﷺ کی شریعت کی طرف ہدایت کرنے میں رسول اللہﷺ کے یہ حضرات قائم مقام اور نائب ہیں۔ تو گویا رسول اللہﷺ قیامت تک حیات ہی رہیں گے۔ اس لئے ہم نے ان کے قبوں رسول خداﷺ کے پہلو میں رقم کیا ہے۔ تو یہ لوگ آنحضرتﷺ سے نہ دنیا میں جدا ہوئے اور نہ آخرت میں جدا ہوں گے۔ اور یہ قبے میں نے اپنی عقل سے رقم نہیں کئے ہیں۔ بلکہ میں نے بعض دفعہ جنت میں اسی صورت میں دیکھا ہے اسی لئے اس طرح لکھ دیا ہے۔ فالحمدللہ رب العالمین (میزان شعرانی: ص 150 ج 1)
آگے اپنے مقلد ہونے کا فخریہ اعلان کرتے ہیں اور مخالفین کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اور من جملہ ان انعامات کے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کئے ایک یہ ہے کہ جب میں ائمہ مجتہدین کے تمام مذاہب میں متبحر ہو گیا تو ان کے تمام مذاہب کی توجیہات اور تقاریر اس طرح کرتا تھا کہ وقت تقریر میں ان مجتہدین میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اور اگر کوئی اس وقت میرے پاس آ جاتا۔ تو اگر میں مذہب حنفی کی تقریر کرتا تو وہ مجھے حنفی سمجھتا۔ اور اگر میں مذہب حنبلی کی تقریر کرتا ہوتا تو حنبلی اور اگر مذہب مالکی کی تقریر کرتا تو مالکی سمجھتا۔ حالانکہ میں مقلد امام شافعیؒ کا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں تمام اماموں کے اقوال کے مناشی اور اصول سے پورے طور پر واقف ہو گیا ہوں۔ اور ان کے تمام ادلہ کا میں نے احاطہ کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے جو بعض دریدہ دہنوں نے میری نسبت یہ بہتان باندھا کہ یہ کسی خاس مذہب کا پابند نہیں ہے۔ حالانکہ میں اپنی وسعت معلومات کی بنا پر ایسا کرتا ہوں۔ (میزان شعرانی: ص 47، ج 1)
علامہ ابن خلدونؒ فرماتے ہیں :۔
ولم یبقراالا مذھب اھل الرأی من العراق واھل الحدیث من الحجاز
”اور باقی نہ رہا مگر مذہب اہل الرائی (فقہا ، احناف) کا جو عراقی ہیں اور محدثین کا جو حجازی ہیں”۔ (مقدمہ ص447)
یعنی جن حضرات پر باوجود محدث ہونے کے فقہ کا غلبہ تھا وہ اہل الرائے کہلائے اور جن پر باوجود فقیہ ہونے کے فن حدیث کا غلبہ تھا وہ محدثین کہلائے پہلے گردو کامرکز عراق تھا اور دوسرے کا حجاز تھاا ور ان ہی کے حولہ سے پہلے گزر چکا ہے کہ ان کے دور میں نہ تو اہل الظاہر کا بالعموم مذہب رہا اور نہ ان کے ائمہ رہے۔
علامہ تاج الدین السبکی الشافعیؒ (المتوفٰی ۷۷۷ھ) فرماتے ہیں کہ:۔
وھذہ المذاھب الاربعۃ وللہ تعالٰے الحمد فی العقائد واحدۃ الا من لحق منھا باھل الا عتزال او التجسم والا فجمہو رھا علٰی الحق یقرون عقیدۃ ابی جعفر الطحاوی التی تاقا ھا العلماء سلفاً و خلفا بالقبول الخ
“اللہ تعالٰی ہی کے لیے تعریف ہے یہ چاروں مذاہب عقائد میں ایک ہی ہیں ہاں مگر ان میں سے جو معتزلہ یا مجسمہ سے جا ملے ورنہ ان کی اکثریت حق پر ہے اور یہ سب اس عقیدہ کا اقرار کرتے ہیں جو امام ابو جعفر الطحاویؒ الحنفیؒ نے (عقیدۃ الطحاوی کے نام سے) لکھا ہے جس کو سلفاً اور خلفاً علماء نے قبول کیا ہے۔ ( معید النعم و مبید النقم ص32 طبع مصر)
اس سے معلوم ہو ا کہ یہ مذاہب اربعہ اصول میں متفق ہیں ان میں جو اختلاف ہیں وہ صرف فروعی ہیں۔ اس کی مزید تشریح انہوں نے اپنی کتاب طبقات الشافعیہ الکبری ص261ج2) طبع مصر میں کی ہے۔
حافظ ابن رجب الحنبلیؒ نے ایک مستقل انتہائی لطیف ومفید رسالہ لکھ کرغیرمقلدین پر رد کیا ہے ، اس رسالہ کا نام ہے؛
الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ ، یعنی ان لوگوں پر رد جو مذاہب اربعہ (حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ) کے علاوه کسی اورکی اتباع کرتے ہیں۔
اس رسالہ شریفہ میں ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے دواہم فیصلے سنائے ہیں:
1 = فروعی مسائل میں صرف اورصرف مذاہب الاربعہ کی اتباع
2 = غیرمذاہب الاربعہ کی اتباع نہ کرنا
حافظ ابن رجب الحنبلی ؒ فرماتے ہیں کہ:
الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ: فاقتضت حكمة الله سبحانه أن ضبط الدين وحفظه بأن نصب للناس أئمة مجتمعاً على علمهم ودرايتهم وبلوغهم الغاية المقصودة في مرتبة العلم بالأحكام والفتوى من أهل الرأي والحديث فصار الناس كلهم يعولون في الفتاوى عليهم ويرجعون في معرفة الأحكام إليهم وأقام الله من يضبط مذاهبهم ويحڑ قواعدهم ، حتى ضبط مذهب كل إمام منهم وأصوله وقواعده وفصوله حتى ترد إلى ذلك الأحكام ويضبط الكلام في مسائل الحلال والحرام وكان ذلك من لطف الله بعباده المؤمنين ومن جملة عوائده الحسنة في حفظ هذا الدين ولولا ذلك لرأى الناس العجاب مِن كل أحمق متكلف معجبٍ برأيه جريءعلى الناس وثَّاب فيدعي هذا أنه إمام الأئمة ويدعي هذا أنه هادي الأمة وأنه هوالذي ينبغي الرجوع دون الناس إليه والتعويل دون الخلق عليه ولكن بحمد الله ومنته انسد هذا الباب الذي خطره عظيم وأمره جسيم وانحسرت هذه المفاسد العظيمة وكان ذلك من لطف الله تعالى لعباده وجميل عوائده وعواطفه الحميمة ومع هذا فلم يزل يظهر من يدعي بلوغ درجة الاجتهاد ويتكلم في العلم من غير تقليدٍ لأحد من هؤلاء الأئمة ولا انقياد فمنهم من يسوغ له ذلك لظهور صدقه فيما ادعاه ومنهم من رد عليه قوله وكذب في دعواه وأما سائر الناس ممن لم يصل إلى هذه الدرجة فلا يسعه إلا تقليد أولئك الأئمة والدخول فيما دخل فيه سائر الأمة ” انتهى۔
اللہ تعالی كى حكمت ہے كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كاعلم و فضل اور درايت احكام وفتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث یعنی محدثین ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب كواحاطہ تحريرميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتى كہ ہر ايک امام كا مسلک اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كرديےكہ احكام معلوم ہوں اورحلال وحرام كے مسائل معلوم وضبط كيے جاسكيں يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايک اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہراحمق كى جانب سےعجيب وغريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھہ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پرفخربھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناک دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كو جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے لیكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تک ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تک پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تک نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہوگا. انتہىٰ۔
حافظ علیہ رحمہ آگے خود ایک سوال نقل کرتے ہیں پھر اس کا جواب دیتے ہیں اور اس کا رد کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ:
فإن قيل : فما تقولون في نهي الإمام أحمد وغيره من الأئمة عن تقليدهم وكتابة كلامهم ، وقول الإمام أحمد : لا تكتب كلامي ولا كلام فلان وفلان ، وتعلم كما تعلمنا . وهذا كثير موجود في كلامهم ؟
قيل : لا ريب أن الإمام أحمد رضي الله عنه كان ينهى عن آراء الفقهاء والاشتغال بها حفظاً وكتابة ويأمر بالاشتغال بالكتاب والسنة حفظاً وفهماً وكتابة ودراسة وبكتابة آثار الصحابة والتابعين دون كلام مَن بعدهم ومعرفة صحة ذلك من سقمه والمأخوذ منه والقول الشاذ المطرح منه ولا ريب أن هذا مما يتعين الاهتمام به والاشتغال بتعلمه أولاً قبل غيره فمن عرف ذلك وبلغ النهاية من معرفته كما أشار إليه الإمام أحمد فقد صارعلمه قريباً من علم أحمد فهذا لا حجرعليه ولا يتوجه الكلام فيه إنما الكلام في منع من لم يبلغ هذه الغاية ولا ارتقى إلى هذه النهاية ولا فهم من هذا إلا النزر اليسير كما هو حال أهل هذا الزمان بل هو حال أكثر الناس منذ أزمان مع دعوى كثير منهم الوصول إلى الغايات والانتهاء إلى النهايات وأكثرهم لم يرتقوا عن درجة البدايات ” انتهى۔ الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ۔
سوال : اگر يہ كہا جائے کہ امام احمد رحمہ الله وغيرہ نے جو اپنى كتاب اور كلام ميں تقليد كرنے سے منع كيا ہے اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں ؟؟ اور پھر امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے ميرا اور فلان اور فلان كا كلام مت لكھو، بلكہ جس طرح ہم نے سيكھا ہے اور تعليم حاصل كى ہے اس طرح تم بھى تعليم حاصل كرو آئمہ كى كلام ميں يہ بہت موجود ہے ؟؟
جواب: بلاشک و شبہ امام احمد رحمہ اللہ فقہاء كى آراء لكھنے اور حفظ كرنے ميں مشغول ہونے سے منع كيا كرتے تھے بلكہ كہتے كہ كتاب و سنت كى فہم اور تعليم و تدريس اور حفظ ميں مشغول ہوا جائے اور صحابہ كرام اور تابعين عظام كے آثار لكھا كريں ان كے بعد والوں كى نہيں اور اس ميں سے صحيح اور ضعيف شاذ و مطروح قول كو معلوم كريں بلاشک اس يہ سے تعين ہو جاتا ہے كہ كتاب و سنت كى تعليم كا اہتمام كرنا كسى دوسرے كام ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے بلكہ پہلے اس كى تعليم حاصل كى جائے.لہذا جو يہ جان لے اور اس كى معرفت كى انتہاء تک پہنچ جائے جيسا كہ امام احمد رحمہ الله نے اشارہ كيا ہے تو اس كا علم تقريبا امام احمد رحمہ الله كے قريب ہو گيا تو اس پر كوئى روک ٹوک نہيں ہے اور نہ ہى اس كے متعلق كلام كى جا رہى ہے، بلكہ كلام تو اس شخص كے متعلق ہے جو اس درجہ تک نہيں پہنچا اور نہ ہى وہ اس كى انتہاء كو پہنچا ہے اور نہ اس نے كوئی سمجھا ہے ہاں تهوڑا ساعلم ضرور ہے جيسا كہ اس دور كے لوگوں كى حالت ہے بلكہ كئى زمانوں سے اكثر لوگوں كا يہى حال ہے وہ انتہاء درجہ تک پہنچنے اورغايت كو پانے كا دعوى كرتے ہيں حالانكہ وہ تو ابتدائى درجات تک بھى نہيں پہنچ سكے۔
ائمۃ الكبار نے مذاہب غیرمشہوره کی عدم تقلید کا فتوی دیا ، حتی کہ امام الحرمين الجوينیؒ المولود سنہ “417هـ” المتوفى سنہ “478هـ” نے محققین کا اجماع اس پرنقل کیا ہے ، لہذا امام الحرمين اپنی کتاب (البرہان “2/744) میں فرماتے ہیں کہ
أجمع المحققون على أن العوام ليس لهم أن يتعلقوا بمذاهب أعيان الصحابة رضي الله تعالى عنهم، بل عليهم أن يتبعوا مذاهب الأئمة الذين سبروا ونظروا وبوبوا الأبواب وذكروا أوضاع المسائل، وتعرضوا للكلام على مذاهب الأولين، والسبب فيه أن الذين درجوا وإن كانوا قدوة في الدين وأسوة للمسلمين؛ فإنهم لم يفتنوا بتهذيب مسالك الاجتهاد، وإيضاح طرق النظر والجدال وضبط المقال، ومن خَلْفَهُم مِنْ أئمةِ الفقهِ كَفَوا مَنْ بَعْدَهُمُ النظرَ في مذاهبِ الصحابةِ، فكان العاميُ مأموراً باتباعِ مذاهبِ السابرين. اهـ
اور إمام الحرمين یہ اجماع چوتھی صدی ہجری میں نقل کر رہےہیں آج پندرہویں صدی میں جو لوگ مختلف شیطانی وساوس کے ذریعے عوام کو دین میں آزاد کر رہےہیں اورہر کس وناکس کو مجتہد وامام کا درجہ دے رہےہیں ،ایسے لوگ کتنی بڑی غلطی کے اندر مبتلا ہیں اس کا اندازه آپ خود لگالیں ،إمام الحرمين کی اس قول کے متعلق امام ابن حجر الہيتميؒ اپنی کتاب (الفتاوى الفقهية الكبرى”8/340” ) میں فرماتے ہیں کہ امامُ المحدث ابن الصلاح ؒ ، نے اپنی کتاب الفتاوی ( كتاب الفتيا ) میں امام الحرمين کے اس قول پر ہی جزم واعتماد کیا ہے ، اور مزید یہ بھی فرمایا کہ تابعین کی بھی تقلید نہ کرے اور نہ اس امام کی جس کا مذہب مُدوَّن وجمع نہیں ہوا ، تقلید صرف ان ائمہ کی کرے گا جن کے مذاہب مُدوَّن وجمع اور پهیل گئے ہیں۔
قال الإمام ابن حجر الهيتميؒ في الفتاوى الفقهية الكبرى “8/340
وأما ابن الصلاح فجزم في كتاب الفتيا بما قاله الإمام – أي إمام الحرمين ء وزاد أنه لا يُقَلِّدَ التابعينَ أيضاً، ولا مَنْ لم يُدوَّن مذهبه، وإنما يقلد الذين دُوِّنَتْ مذاهبهم وانتشرت، حتى ظهر منها تقييد مطلقها وتخصيص عامها، بخلاف غيرهم فإنه نقلت عنهم الفتاوى مجردة، فلعل لها مكملا أو مقيدا أو مخصصا، لو انبسط كلام قائله لظهر خلاف ما يبدو منه، فامتنع التقليد إذاً لتعذرِ الوقوفِ على حقيقة مذاهبهم. اهـ
خلاصہ وحاصل ان ائمہ اسلام کے اقوال وتصریحات کا یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی اور امام ومجتہد کی تقلید ممنوع ہے کیونکہ ائمہ اربعہ کے علاوه کسی اور امام ومجتہد کی تمام اجتہادات ومذہب جمع ومحفوظ نہیں رہا ، اور یہ جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے علماء امت نے (تب الأصول) میں یہی تصریح کی ہے۔
شيخ الاسلام علامہ ابن تيميہ ؒنے اپنی کتاب (منهاج السنة النبوية) جو کہ روافض وشیعہ کی رد میں ایک عظیم کتاب ہے، اس میں رافضی وسوسہ نقل کرنے کے بعد اس کا رد کرتے ہیں اور منہ توڑ جواب دیتے ہیں:
(منهاج السنة النبوية ألمجلد الثاني ألصفحة 128 ، 129 ،130 ،131 ،132 ، 133 ، ألطبعة دارالكتب العلمية بيروت لبنان)
1. رافضى وسوسہ ۔ یہ مذاہب حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے زمانہ میں موجود نہیں تھے ؟
جواب از شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ الله
حضرات ائمہ اربعہ رحمہم الله کے مسائل وہی ہیں جو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله عنهم سے نقل درنقل ہوتے چلے آرہےہیں ، باقی یہ بات کہ ائمہ اربعہ حضور ﷺ کے زمانہ میں نہیں تھے تو اس میں کیاحرج ہے ، امام بخاری ؒ امام مسلمؒ امام ابوداود ؒ امام حفصؒ یا امام ابن کثیرؒ اور امام نافع ؒ وغیرہم ائمہ کرام بھی حضور ﷺ کے زمانہ میں نہیں تھے ۔
2. رافضى وسوسہ۔ مقلدین نے اقوال صحابہ کوچھوڑدیا اور قیاس کوپکڑلیا؟
جواب از شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله
یہ رافضی کا جھوٹ ہے مذاہب اربعہ کی کتابوں کودیکھ لیجیئے کہ وه اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھری پڑی ہیں لہذا وه ائمہ اربعہ اور جمیع اہل السنّت صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اقوال سے باقاعده استدلال کرتے ہیں ، اور ان کے اقوال کو اپنے لئے حجت ودلیل سمجھتے ہیں اور ان پرعمل کرتے ہیں ،اور اہل سنت کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجماع سے خروج ومخالفت جائزنہیں ہے ، حتی عام ائمہ مجتہدین نے یہ تصریح کی ہےہمارے لئےاقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی خروج ومخالفت جائزنہیں ہے۔
(اسی طرح فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث نام نہادغیرمقلدین کا مذہب یہ ہے کہ صحابی کا قول ، فعل ، فہم ، حجت ودلیل نہیں ہے ، لہذا اہل سنت کے طریق پرکون ہوا فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث یا مذاہب اربعہ ؟؟؟ )
3. رافضى وسوسہ: مقلدین نے چارمذاہب گھڑلئے جوحضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے زمانہ میں نہیں تھے ؟
جواب از شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ الله
اگر رافضی کی مراد یہ ہے کہ ائمہ أربعۃ نے یہ مذاہب گھڑ لئے ہیں اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مخالفت کی تویہ رافضی کا جھوٹ ہے ائمہ أربعۃ پر بلکہ ان ائمہ میں سے ہرایک نے کتاب وسنت کی اتباع کی دعوت ہی دی ہے۔ (کیا کتاب وسنت کے داعی کی تقلید واتباع کرنے والا ( معاذالله ) مشرک وبدعتی ہوتا ہے ؟
4. رافضى وسوسہ: مقلدین اپنے آپ کو ابوبکری ، عمری ، وغیره نہیں کہتے یعنی مذہب أبی بكر وعمر کیوں اختیار نہیں کرتے ؟؟
جواب از شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ الله
سبب اس کا یہ ہے ابوبکر وعمر وغیرهما رضی الله عنہم نے دینی مسائل کتابی شکل میں جمع نہیں کئے ، بخلاف ائمہ اربعہ کے کہ خود انہوں نے اور ان کے معتمد ومعتبر شاگردوں نے ان کے بیان کرده تمام مسائل واجتہادات کو کامل طور پرجمع کردیا ، اس لئے ان مسائل کی نسبت ائمہ اربعہ کی طرف ہوگئی اور ان مسائل میں ان ائمہ کی تقلید واتباع کرنے والے حنفی شافعی وغیره کہلائے۔ ( یہاں سے شیخ الاسلام نے فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں شامل بعض جہلاء کا یہ وسوسہ بھی کافور کردیا کہ لوگوں نے بعد میں یہ مسائل امام ابوحنیفہ ؒ کی طرف منسوب کرلئےہیں یہ ان کے اپنے مسائل نہیں ہیں )۔
جس طرح بخاری ، مسلم ، ابی داود وغیره کتب امام بخاری امام مسلم امام ابوداود نے مرتب ومُدَوَّن وجمع کئے ہیں ، اورانتہائی امانت ودیانت کے ساتھ انہوں احادیث رسول ﷺ کوجمع کیا ہے اس لئے ان کتب کی نسبت انہی کی طرف کی جاتی ہے ، یہ نسبت ایسی نہیں ہے کہ ( معاذالله ) ان کتب میں ان کی اپنی اختراعی وایجاد کرده باتیں ہیں ، جیسے کتاب صحیح بخاری کوامام بخاری کی طرف منسوب کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں درج شده احادیث امام بخاری کے اپنے اقوال وآراء ہیں ،احادیث نہیں ہیں ،اسی طرح حضرات ائمہ اربعہ کی طرف مسائل کی نسبت سے ہرگزیہ لازم نہیں آتا کہ وه رسول ﷺ وحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثارنہیں ہیں ، جس طرح امام بخاری نے سولہ ( 16 ) سال کی کمال محنت ومشقت کے ساتھ ان احادیث کوجمع کرنے پرلگائے ، اسی طرح مسائل فقہ کی جمع وتدوین میں حضرات ائمہ اربعہ وغیرهم مجتہدین نے انتهائی کوشش ومحنت کی ہے ، اسی وجہ سے ان مسائل کی نسبت ان کی طرف ہوئی ، اس لئے نہیں کہ یہ ان کی اپنی ایجاد واختراع ہے۔
اسی طرح امام حفصؒ یا امام ابن کثیر ؒ اور امام نافع ؒ وغیرهم قُراء کرام کی قرآت ان کی اپنی ایجاد نہیں ہے بلکہ ان قُراء کرام کی قرآت توخود حدیث صحیح سے ثابت ہیں ۔
قال ﷺ: “إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرؤوا ما تيسر منه” أخرجه البخاري ومسلم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، وأخرجه البخاري من حديث ابن عباس عن النبي ﷺ قال: “أقرأني جبريل على حرف فراجعته فلم أزل أستزيده ويزيدني حتى انتهى إلى سبعة أحرف۔
اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواترسے منقول ہوتی چلی آرہی ہیں ، لہذا ان قرآت کی نسبت حضرات قُراء کرام کی طرف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قرآت توان کی اپنی ایجادہیں ، اسی طرح فقہ اورمذاہب اربعہ کی ائمہ کی طرف نسبت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ فقہ ومسائل تو ائمہ کی اپنی ایجاد ہیں ۔
5. رافضى وسوسہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قیاس کو چھوڑنے کی تصریح کی ہے ، اور انہوں نے فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا تھا۔
جواب از شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ الله
جمہورعلماء قیاس کا اثبات کرتے ہیں اور انہوں نے فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اجتہاد بالرائ اور قیاس ثابت ہے ، جیسا کہ ان سے قیاس کی مذمت بھی ثابت ہے ، لہذا دونوں قول صحیح ہیں ، پس مذموم قیاس وه ہے جوکسی نص کے مخالف ومعارض ہو جیسے ان لوگوں کا قیاس جنہوں نے کہا ( إنما البيع مثل الربا ) الخ۔ (لہذا ائمہ اربعہ ودیگرائمہ مجتہدین کا قیاس کسی نص کے مخالف نہیں ہوتا)۔
بغرض امانت وثبوت ودلیل شيخ الإسلام ابن تيميہ رحمہ الله کی اصل عبارات درج ذیل ہیں
قال الرافضي : (( وذهب الجميع منهم إلى القول بالقياس ، والأخذ بالرأي ، فأدخلوا في دين الله ما ليس منه ، وحرّفوا أحكام الشريعة ، وأحدثوا مذاهب أربعة لم تكن في زمن النبي ﷺ ولا زمن صحابته ، وأهملوا أقاويل الصحابة ، مع أنهم نصُّوا على ترك القياس ، وقالوا : أول من قاس إبليس))
فيقال الجواب عن هذا من وجوه :
أحدها : أن دعواه على جميع أهل السنة المثبتين لإمامة الخلفاء الثلاثة أنهم يقولون بالقياس دعوى باطلة ، قد عُرف فيهم طوائف لا يقولون بالقياس ، كالمعتزلة البغداديين ، وكالظاهرية كداود وابن حزم وغيرهما ، وطائفة من أهل الحديث والصوفية .وأيضا ففي الشيعة من يقول بالقياس كالزيدية . فصار النزاع فيه بين الشيعية كما هو بين أهل السنة والجماعة۔
الثاني : أن يقال : القياس ولو قيل : إنه ضعيف هو خير من تقليد من لم يبلغ في العلم مبلغ المجتهدين ، فإن كل من له علم وإنصاف يعلم أن مثل مالك والليث بن سعد والأوْزاعي وأبي حنيفة والثَّوري وابن أبى ليلى ، ومثل الشافعي وأحمد إسحاق وأبى عبيد وأبى ثَوْر أعلم وأفقه من العسكريين أمثالهما وأيضا فهؤلاء خير من المنتظر الذي لا يعلم ما يقول ، فإن الواحد من هؤلاء إن كان عنده نص منقول عن النبي ﷺ فلا ريب أن النص الثابت عن النبي ﷺ مقدَّم على القياس بلا ريب ، وإن لم يكن عنده نص ولم يقل بالقياس كان جاهلا ، فالقياس الذي يفيد الظن خير من الجهل الذي لا علم معه ولا ظن ، فإن قال هؤلاء كل ما يقولونه هو ثابت عن النبي ﷺ كان هذا أضعف من قول من قال كل ما يقوله المجتهد فإنه قول النبي ﷺ ، فإن هذا يقوله طائفة من أهل الرأي ، وقولهم أقرب من قول الرافضة ، فإن قول أولئك كذب صريح .وأيضا فهذا كقول من يقول : عمل أهل المدينة متلقى عن الصحابة وقول الصحابة متلقى عن النبي ﷺ ، وقول من يقول: ما قاله الصحابة في غير مجاري القياس فإنه لا يقوله إلا توقيفا عن النبي ﷺ ، وقوله من يقول: قول المجتهد أو الشيخ العارف هو إلهام من الله ووحي يجب اتباعه۔
فإن قال : هؤلاء تنازعوا .قيل وأولئك تنازعوا ، فلا يمكن أن تدَّعي دعوى باطلة إلا أمكن معارضتهم بمثلها أو بخير منها ولا يقولون حقًّا إلا كان في أهل السنة والجماعة من يقول مثل ذلك الحق أو ما هو خير منه ، فإن البدعة مع السنة كالكفر مع الإيمان . وقد قال تعالى : ]وَلاَ يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً
الثالث : أن يقال الذين أدخلوا في دين الله ما ليس منه وحرّفوا أحكام الشريعة ، ليسوا في طائفة أكثر منهم في الرافضة ، فإنهم أدخلوا في دين الله من الكذب على رسول الله ﷺ ما لم يكذبه غيرهم ، وردّوا من الصدق ما لم يرده غيرهم ، وحرّفوا القرآن تحريفاً لم يحرّفه أحد غيرهم مثل قولهم : إن قوله تعالى : ]إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُون نزلت في عليّ لما تصدق بخاتمه في الصلاة۔
وقوله تعالى : َمرَجَ الْبَحْرَيْنِ : علي وفاطمة ، َيخرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَان : الحسن والحسين ، وَكُلُّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِين علي بن أبي طالب إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيم وَآلَ عِمْرَانَ هم آل أبي طالب واسم أبي طالب عمران ، َفقاتلوا أَئِمَّةَ الْكُفْر:طلحة والزبير، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآن هم بنو أمية ، إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُم أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَة:عائشة و َلئنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ: لئن أ شركت بين أبي بكر وعلي في الولاية وكل هذا وأمثاله وجدته في كتبهم . ثم من هذا دخلت الإسماعيلية والنصيرية في تأويل الواجبات والمحرّمات ، فهم أئمة التأويل ، الذي هو تحريف الكلم عن مواضعه ، ومن تدبر ما عندهم وجد فيه من الكذب في المنقولات ، والتكذيب بالحق منها والتحريف لمعانيها ، مالا يوجد في صنف من المسلمين ، فهم قطعا أدخلوا في دين الله ما ليس منه أكثر من كل أحد ، وحرّفوا كتابه تحريفا لم يصل غيرهم إلى قريب منه۔
الوجه الرابع : قوله : ((وأحدثوا مذاهب أربعة لم تكن في زمن النبي ﷺ ولا زمن صحابته ، وأهملوا أقاويل الصحابة))۔
فيقال له : متى كان مخالفة الصحابة والعدول عن أقاويلهم منكراً عند الإمامية ؟ وهؤلاء متفقون على محبة الصحابة وموالاتهم وتفضيلهم على سائر القرون وعلى أن إجماعهم حجة ، وعلى أنه ليس لهم الخروج عن إجماعهم ، بل عامة الأئمة المجتهدين يصرّحون بأنه ليس لنا أن نخرج عن أقاويل الصحابة ، فكيف يطعن عليهم بمخالفة الصحابة من يقول : إن إجماع الصحابة ليس بحجة، وينسبهم إلى الكفر والظلم ؟فإن كان إجماع الصحابة حجة فهو حجة على الطائفتين ، وإن لم يكن حجة فلا يحتج به عليهم .وإن قال : أهل السنة يجعلونه حجة ، وقد خالفوه قيل : أما أهل السنة فلا يتصور أن يتفقوا على مخالفة إجماع الصحابة ، وأما الإمامية فلا ريب أنهم متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفة إجماع الصحابة ، فإن لم يكن في العترة النبوية –بنو هاشم – على عهد النبي ﷺ وأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رصى الله عنهم من يقول بإمامة الاثنى عشر ولا بعصمة أحد بعد النبي ﷺ ، ولا بكفر الخلفاء الثلاثة ، بل ولا من يطعن في إمامتهم ، بل ولا من ينكر الصفات ، ولا من يكذب بالقدر فالإمامية بلا ريب متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفتهم لإجماع الصحابة ، فكيف ينكرون على من لم يخالف لا إجماع الصحابة ولا إجماع العترة ؟۔
الوجه الخامس : أن قوله : ((أحدثوا مذاهب أربعة لم تكن على عهد رسول الله ﷺ))۔ إن أراد بذلك أنهم اتفقوا على أن يحدثوا هذه المذاهب مع مخالفة الصحابة فهذا كذب عليهم ، فإن هؤلاء الأئمة لم يكونوا في عصر واحد ، بل أبو حنيفة توفى سنة خمسين ومائة ومالك سنة تسع وسبعين ومائة ، والشافعي سنة أربع ومائتين ، وأحمد بن حنبل سنة إحدى وأربعين ومائتين ، وليس في هؤلاء من يقلد الآخر ، ولا من يأمر باتّباع الناس له ، بل كل منهم يدعو إلى متابعة الكتاب والسنة ، وإذا قال غيره قولا يخالف الكتاب والسنة عنده رده ،ولا يوجب على الناس تقليده وإن قلت ان هذه المذاهب اتّبعهم الناس ، فهذا لم يحصل بموطأة ، بل اتفق أن قوما اتّبعوا هذا ، وقوما اتبعوا هذا ، كالحجاج الذين طلبوا من يدلهم على الطريق ، فرأى قوم هذا الدليل خبيراً فاتّبعوه، وكذلك الآخرون.وإذا كان كذلك لم يكن في ذلك اتفاق أهل السنة على باطل ، بل كل قوم منهم ينكرون ما عند غيرهم من الخطأ ، فلم يتفقوا على أن الشخص المعيّن عليه أن يقبل من كل من هؤلاء ما قاله ، بل جمهورهم لا يأمرون العاميّ بتقليد شخص معيّن غير النبي ﷺ في كل ما يقوله.والله تعالى قد ضمن العصمة للامة ، فمن تمام العصمة أن يجعل عدداً من العلماء إن أخطأ الواحد منهم في شيء كان الآخر قد أصاب فيه حتى لا يضيع الحق ، ولهذا لما كان في قول بعضهم من الخطأ مسائل ، كبعض المسائل التي أوردها ، كان الصواب في قول الآخر ، فلم يتفق أهل السنة على ضلالة أصلا ، وأما خطأ بعضهم في بعض الدين ، فقد قدّمنا في غير مرة أن هذا لا يضر ، كخطأ بعض المسلمين . وأما الشيعة فكل ما خالفوا فيه أهل السنة كلهم فهم مخطئون فيه ، كما أخطأ اليهود والنصارى في كل ما خالفوا فيه المسلمين۔
الوجه السادس : أن يُقال : قوله : (( إن هذه المذاهب لم تكن في زمن النبي ﷺ ولا الصحابة ))إن أراد أن الأقوال التي لهم لم تنقل عن النبي ﷺ ولا عن الصحابة ، بل تركوا قول النبيﷺ والصحابة وابتدعوا خلاف ذلك ، فهذا كذب عليهم ، فإنهم لم يتفقوا على مخالفة الصحابة ، بل هم – وسائر أهل السنة – متبعون للصحابة في أقوالهم ، وإن قدّر أن بعض أهل السنّة خالف الصحابة لعدم علمه بأقاويلهم ، فالباقون يوافقون ويثبتون خطأ من يخالفهم، وإن أراد أن نفس أصحابها لم يكونوا في ذلك الزمان ، فهذا لا محذور فيه . فمن المعلوم أن كل قرن يأتي يكون بعد القرن الأول
الوجه السابع : قوله : (( وأهملوا أقاويل الصحابة )) كذب منه ، بل كتب أرباب المذاهب مشحونة بنقل أقاويل الصحابة والاستدلال بها ، وإن كان عند كل طائفة منها ما ليس عند الأخرى . وإن قال : أردت بذلك أنهم لا يقولون : مذهب أبي بكر وعمر ونحو ذلك ، فسبب ذلك أن الواحد من هؤلاء جمع الآثار وما استنبطه منها ، فأضيف ذلك إليه ، كما تضاف كتب الحديث إلى من جمعها ، كالبخاري ومسلم وأبي داود ، ، وكما تضاف القراأت إلى من اختارها ، كنافع وابن كثير۔ وغالب ما يقوله هؤلاء منقول عمن قبلهم ، وفي قول بعضهم ما ليس منقولا عمن قبله ، لكنه استنبطه من تلك الأصول . ثم قد جاء بعده من تعقب أقواله فبيّن منها ما كان خطأ عنده ، كل ذلك حفظا لهذا الدين ، حتى يكون أهله كما وصفهم الله به َيأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر فمتى وقع من أحدهم منكر خطأ أو عمداً أنكره عليه غيره وليس العلماء بأعظم من الأنبياء ، وقد قال تعالى : وَدَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْم وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِين . فَفَهَّمْناهَا سُلَيْمَانَ وَكُلاًّ آتَيْنَا حُكْماً وَعِلْمًا وثبت في الصحيحين عن ابن عمررضي الله عنهما أن النبي ﷺ قال لأصحابه عام الخندق : ((لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة ، فأدركتهم صلاة العصر في الطريق ، فقال بعضهم:لم يُرد منا تفويت الصلاة ، فصلُّوا في الطريق . وقال بعضهم : لا نصلي إلا في بني قريظة ،فصلوا العصر بعد ماغربت الشمس،فما عنّف واحدة من الطائفتين)) فهذا دليل على أن المجتهدين يتنازعون في فهم كلام رسول الله ﷺ ، وليس كل واحد منهم آثماً ۔
الوجه الثامن : أن أهل السنة لم يقل أحد منهم إن إجماع الأئمة الأربعة حجة معصومة ، ولا قال : إن الحق منحصر فيها ، وإن ما خرج عنها باطل ، بل إذا قال من ليس من أتباع الأئمة ، كسفيان الثوري والأوزاعي واللَيْث بن سعد ومن قبلهم ومن بعدهم من المجتهدين قولا يخالف قول الأئمة الأربعة ، رُدَّ ما تنازعوا فيه إلى الله ورسوله ، وكان القول الراجح هو القول الذي قام عليه الدليل۔
الوجه التاسع : قوله : (( الصحابة نصوا على ترك القياس )) . يقال [له] : الجمهور الذين يثبتون القياس قالوا: قد ثبت عن الصحابة أنهم قالوا بالرأي واجتهاد الرأي وقاسوا ، كما ثبت عنهم ذم ما ذموه من القياس . قالوا: وكلا القولين صحيح ، فالمذموم القياس المعارض للنص ، كقياس الذين قالوا : إنما البيع مثل الربا ، وقياس إبليس الذي عارض به أمر الله له بالسجود لآدم ، وقياس المشركين الذين قالوا: أتأكلون ما قتلتم ولا تأكلون ما قتله الله ؟ قال الله تعالى : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُم المُشْرِكُون وكذلك القياس الذي لا يكون الفرع فيه مشاركا للأصل في مناط الحكم، فالقياس يُذم إما لفوات شرطه ،وهو عدم المساواة في مناط الحكم، وإما لوجود مانعه ، وهو النص الذي يجب تقديمه عليه ، وإن كانا متلازمَيْن في نفس الأمر ، فلا يفوت الشرط إلا والمانع موجود ، ولا يوجد المانع إلا والشرط مفقود .فأما القياس الذي يستوي فيه الأصل والفرع في مناط الحكم ولم يعارضه ماهو أرجح منه ، فهذا هو القياس الذي يتبع .ولا ريب أن القياس فيه فاسد ، وكثير من الفقهاء قاسوا أقيسة فاسدة ، بعضها باطل بالنص ، وبعضها مما اتفق على بطلانه ، لكن بطلان كثير من القياس لا يقتضي بطلان جميعه ، كما أن وجود الكذب في كثير من الحديث لا يوجب كذب جميعه۔
بحرالعلوم علامہ عبدالحئی لکھنویؒ نے لکھا ہے ۔
قال بحر العلوم العلامة اللكنوي : ((لم يوجد بعد الأربعة مجتهد اتفق الجمهور على اجتهاده وسلَّموا استقلاله كاتفاقهم على اجتهادهم، فهو مسلم، وإلا فقد وجد بعدهم أيضاً أرباب الاجتهاد المستقل: كأبي ثور البغدادي، وداود الظاهري، ومحمد بن إسماعيل البخاري، وغيرهم على ما لا يخفى على من طالع كتب الطبقات)) كما في (النافع الكبير،ص16)
حکیم الہند حضرت الشیخ شاه ولی الله دہلویؒ نے بھی اپنی کتاب ( الانصاف ، ص97) میں یہی فرمایا کہ:
إن هذه المذاهب الأربعة المدونة قد اجتمعت الأمة أو من يُعتدّ به منها، على جواز تقليدها، وفي ذلك من المصالح ما لا يخفى، لا سيما في هذه الأيام التي قصرت الهمم، وأشرِبَت النفوس الهوى، وأعجب كل ذي رأي برأيه۔
امام سيوطیؒ نے اتنی بہترین بات بیان کی ہے جوسونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے:
وقال الإمام السيوطي رضي الله عنه : (اعلم أن اختلاف المذاهب في هذه الملّة نعمة كبيرة وفضيلة عظيمة، وله سرٌّ لطيف أدركه العالِمون، وعَمِي عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي ﷺ جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة) كما في۔ (أدب الاختلاف، ص25)
خوب جان لو کہ اختلاف المذاہب مِلت اسلام میں بہت بڑی نعمت اورعظیم فضیلت ہے ، اوراس میں ایک لطیف راز ہے جس کو علماء ہی جانتےہیں ، اورجاہل لوگ اس راز سے غافل وبے خبرہیں ، حتی کہ میں نے بعض جاہل لوگوں کویہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ﷺ توایک شریعت لے کرآئے یہ مذاہب اربعہ کہاں سے آگئے ؟
علامہ مناویؒ فرماتے ہیں:
ہم پر یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ ائمہ اربعہ، سفیان چوری و سفیان بن عیینہ، امام اوزاعی، داؤد ظاہری، اسحٰق بن راہویہ اور تمام ائمہ راہ راست پر تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اور غیر مجتہد پر لازم ہے کہ کسی معین مذہب کی تقلید کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن صحابہؓ کی تقلید جائز نہیں، اسی طرح تابعین کی تقلید بھی۔ جیسا کہ امام الحرمین کی تحقیق سے واضح ہےکہ جس امام کا مذہب مدون نہ ہو اس کی تقلید جائز نہیں۔ لہٰذا قضاء و افتاء میں ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی اور کی تقلید جائز نہیں۔ کیونکہ مذاہب اربعہ اس حد تک مشہور اور پھیل گئے کہ ان میں مطلق کی قیودات، عموم کی تخصیصات بھی واضح ہیں، برخلاف دیگر مذاہب کے کہ ان میں یہ چیز نہیں کیونکہ ان کے پیروکار جلد ہی ختم ہو گئے تھے۔ امام رازی نے اجماع نقل کیا ہے کہ عوام کو اکابر صحابہ کی تقلید سے منع کیا جائے گا۔ (فیض القدیر، جلد 1 ص 401، 402، مکتبۃ نزار مصطفیٰ الباز)
علامہ نوویؒ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اکابرین صحابہؓ وغیرہ اگرچہ بعد والوں سے علم وعمل میں بہت آگے ہیں لیکن پھر بھی کسی کے لیے جائز نہیں کہ صحابہ کرامؓ کے مذہب کو اپنائے، کیونکہ صحابہ کرامؓ کو اتنا موقع نہیں ملا کہ وہ اپنے مذہب کو مدون کرتے اور اس کے اصول و فروع کو محفوظ کرتے، اسی وجہ سے صحابہ کرامؓ میں سے کسی بھی صحابیؓ کا مذہب مدون و منقح نہیں، ہاں بعد میں آنے والے ائمہ امام مالک، امام ابوحنیفہ وغیرہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور باقاعدہ مذاہب مدون کر کے ان کے اسول و فروع کو محفوظ کیا اور مسائل کے وقوع سے پہلے ان کا حل تلاش کیا۔ (شرح المہذب ، جلد 1 ص 88، فصل فی آداب المستفتی ، دارالفکر)۔
علامہ نوویؒ مزید فرماتے ہیں:
اگر یہ جائز ہوتا کہ جس مذہب کی تقلید کرنی ہے کر سکتے ہیں، تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ نفس و خواہشات کی پیروی مین مختلف مذاہب سے رخصتوں کو تلاش کیا جاتا، تحلیل و تحریم، واجب و جائز میں جو دل کو بھاتا اسی کو اختیار کیا جاتا تو اس طرح شریعت کی پابندی سے بھی آزادمل جاتی، صحابہ و تابعین کے زمانے میں ایک امام کی تقلید موجودہ شکل میں اس لئے نہیں تھی کہ اس وقت مذاہب پوری طرح منقح نہیں تھے، اب جب کہ مذاہب واضھ و منقح ہو گئے اور ماقبل میں ذکر کئے گئے خطرات بھی موجود ہیں اس لئے غیر مجتہد کے لیے لازم ہے کہ کسی مذہب معین کی پیروی کرے۔ (شرح المہذب، فصل فی آداب المستفتی، جلد 1 ص 88)
علامہ شاطبیؒ فرماتے ہیں:
اگر مقلدین کو یہ اختیار ملتا کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب میں سے جس مسئلے کو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں تو اس کا حاصل سوائے نفس و خواہشات کی پیروی کے کچھ نہ ہوتا اور یہ مقاصد شرع کے خلاف ہے۔ (الموافقات ، جلد 4 ص 82)
علامہ ابن خلدونؒ نے فرمایا:
ومدعی الاجتھاد لھذا العھد مردود علی عقبہ ومھجور تقیدہ، وقد صار اھل الاسلام الیوم علی تقلید ھولاء الائمۃ الاربعۃ ۔ (مقدمہ ابن خلدون، الفصل السابع فی علم الفقہ، جلد 1 ص 448)
اس زمانے میں جو بھی دعویٰ اجتہاد کرے گا اس کا دعویٰ ناقابل قبول ہو گا اور نہ ہی اس کی تقلید کی جائے گی کیونکہ اب اہل اسلام صرف ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
“ولا یخلو امر الداعی من امرین: الاول ان یکون مجتھداً او مقلداً فالمجتھد ینظرفی تصانیف المتقدمین من القرون الثلاثۃ ثم یرجع ما ینبغی ترجیحہ، الثانی: المقلد یقلد السلف: اذ القرون المتقدمۃ افضل مما بعدھا’
” دین کا داعی دو حال سے خالی نہیں، مجتہد ہو گا یا مقلد، مجتہد قرون ثلاثہ کے متقدمین کی تصانیف سے مستفید ہو کر راجح قول کر ترجیح دیتا ہے اور مقلد سلف کی تقلید کرتا ہے ، کیونکہ ابتدائی صدیاں بعد والوں سے افضل ہیں”۔ (مجموعۃ الفتاویٰ جلد 20صفحہ 9)۔
سعودیہ کے مشہور عالم شیخ صالح بن فوزان نہ صرف علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو حنبلی کہتے ہیں بلکہ علامہ ان قیم رحمہ اللہ کو بھی حنبلی مقلد ثابت کرتے ہیں. اور اس کے ساتھ ساتھ چاروں مذاہب سے نکلنے والے کو گمراہ کہتے ہیں۔
وها هم الأئمة من المحدثين الكبار كانوا مذهبيين، فشيخ الإسلام ابن تيمية وابن القيم كانا حنبليين، والإمام النووي وابن حجر كانا شافعيين، والإمام الطحاوي كان حنفيا، والإمام ابن عبد البر كان مالكيا. ليس التمذهب بأحد المذاهب الأربعة ضلالا حتى يعاب به صاحبه. بل إن الذي يخرج عن أقوال الفقهاء المعتبرين وهو غير مؤهل للاجتهاد المطلق هو الذي يعتبر ضالا وشاذا
اور یہ ہمارے پاس ائمہ محدثین ہیں جو مذاہب اربعہ میں سے کسی مذہب کی پیروی کرتے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ حنبلی تھے، امام نووی رحمہ اللہ اور ابن حجر رحمہ اللہ شافعی تھے، امام طحاوی رحمہ اللہ حنفی تھے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ مالکی تھے.چاروں مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی پیروی کرنا گمراہی نہیں ہے جس کی بدولت کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ بلکہ جو شخص معتبر فقہا کے اقوال کے باہر جاتا ہےاور اس میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے اس کا حق بنتا ہے کہ اس کو گمراہ کہا جائے۔ (اعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید، شیخ صالح الفوزان، جلد 1 صفحہ 12)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرَفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ.
’’امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔‘‘ ( عقد الجيد، جلد 1 ص 31)
وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا
یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ فرماتے ہیں:
فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروعالمسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم
یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے ۔ (تفسیر مظہری:۲/۶۴)
علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں:
وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔
اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر فی اصول الفقہ: ۵۵۲)
علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں:
وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع
یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)
شیخ احمد المعروف بملا جیون تفسیرات احمدیہ رقم طراز ہیں:
قد وقع الإجماع علی أن الاتباع إنما یجوز للأربع الخ
یعنی اس پر اجماع منعقد ہوچکا ہے کہ اتباع صرف ائمہ اربعہ کی ہی جائز ہے آگے فرماتے ہیں:
وکذا لا یجوز الاتباع لمن حدث مجتھدًا مخالفًا لھم
یعنی اسی بنا پر جو مجتہد نیا پیدا ہو اور اس کا مذہب ان ائمہ اربعہ کے خلاف ہو تو اس کی اتباع بھی جائز نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۱/۷۹)
امام ابراہیم سرخسی مالکیؒ فرماتے ہیں:
ر وأما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۰ بحوالہ الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
محدث ابن حجر مکیؒ فرماتے ہیں:
أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین
یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)
شارح مسلم شریف علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ
یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۱ بحوالہ نورالہدایہ: ۱/۱۰)
سید احمد طحطاویؒ فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرقہ ناجیہ کے بارے میں بتلاتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں:
وھذہ الطائفة الناجیة قد اجتمعت الیوم في المذاھب الأربعة ھم الحنیفون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون ومن کان خارجًا من ھذہ الذاھب الأربعة في ذلک الزمان فھو من أھل البدعة والنّار
اور یہ نجات پانے والا گروہ آج مجتمع ہوگیا ہے چار مذاہب میں اور وہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں اور جو شخص اس زمانہ میں ان چار سے خارج ہے وہ اہل بدعت اور اہل نار سے ہے۔ (طحطاوی علی الدر المختار: ۴/۱۵۳)
سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام اولیاء دہلوی رحمہ اللہ کتاب راحة القلوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
حضرت خواجہ سید العابدین شکر گنج ؒ نے بتاریخ ۱۱/ ماہ ذی الحجہ ۶۵۵ھ فرمایا کہ ہرچار مذہب برحق ہیں (فتاویٰ رحیمیہ:۱/۸۱)
امام غزالیؒ (حنبلی) فرماتے ہیں:
“تقلید تو اجماع صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات دین ثابت ہے” (المستصفى:٢/٣٨٥)
Add comment