سنت وبدعت کی انوکھی تعریف
از مرتب: مفتی شبیر احمد حنفی
خزائن السنن کے عنوان سے عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے ملفوظات کو پیش کیا جاتاہے۔ سنت اور بدعت کی تعریف جو حضرت دامت برکاتہم نے اپنے علمی ذوق کے مطابق فرمائی ہے، ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا:آپ کو سنت کی ایک عاشقانہ تعریف سناتا ہوں کہ سنت کیا ہے اور بدعت کیا ہے؟ اور یہ تعریف بہت بڑے بزرگ مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے،فرماتے ہیں۔
مے توحید سے سرشار ہوں سنت ہے یہی
یہاں توحید سے مراد سنت کے مطابق اللہ کی وحدانیت کو ماننا ہے یعنی جواللہ کو ایک جانے اور اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری میں ساری کائنات سے روکش ہوجائے تب اسکی توحید کامل ہوتی ہے۔ توحید اعتقادی تو کامل ہوسکتی ہے، توحید عملی بھی تو کامل ہونی چاہیے۔اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کی نہ سنے یہاں تک کہ اپنے نفس کی بھی نہ سنے۔ جو اپنے نفس کی بات مانتا ہے وہ عملاًفاسق ہے۔مشرکوں جیسا عمل کرتا ہے۔جو اپنے نفس کی خواہشات کو خدا بناتا ہے تو وہ الٰہ باطل کا عابد بنا ہوا ہے یا نہیں؟ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ کیا آپ نے ایسے نالائقوں کو دیکھا جو اپنے نفس کی خواہش کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔کوئی حسین شکل سامنے آجائے تو پاگل کی طرح سے اس کو دیکھ رہا ہے۔دوستو!یہی کہتا ہوں کہ ایمان کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے کہ جب سڑکوں پر لڑکیاں اور لڑکے چڈی پہن کر گذررہے ہوں ،پھر دیکھو کہ آپ کو اللہ سے کتنی محبت ہے۔پھر اپنی نگرانی کرو کہ ہم کو اللہ کی کتنی محبت ہے،کہیں ہم نے نفس کی خواہش کو خدا تو نہیں بنایا ہوا ہے،اس آیت کو یاد کرلو : أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ کیا آپ نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو اپنی نفس کی خواہش کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔جب ان کے سامنے حسن کا مال آگیا اس وقت نہ ان کو قرآن یاد آتا ہے نہ حدیث،نہ شیخ یاد نہ اس کی رفاقتیں یاد،نہ توحید ،نہ ملتزم،نہ روضہ پاک۔ اس ظالم کو کچھ یاد نہیں رہتا۔تو اس نے اپنی خواہشات کو خدابنایا یا نہیں؟اس آیت کی روسے وہ موحدہے؟ اس سے مولانا محمد احمد رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔
مے توحید سے سرشار ہوں سنت ہے یہی
دل کسی غیر کو دے دیں تو یہی بدعت ہے
یہ کتنی پیاری تعریف ہے ،یعنی اس کے اندر علم کی روح ہے،اس شعر کو سن کر ندوہ کے بڑے بڑے علماء بھی مست ہوگئے۔
دل کسی غیر کو دے دیں تو یہی بدعت ہے
جب سڑکوں پر موٹر میں بیٹھے ہوئےجارہے ہیں اور رنگ برنگ کی ٹیڈیاں سامنے آئیں اور آپ نے ان کو دیکھ لیا ،اللہ کے فرمان عالی شان غض بصر کو نظر انداز کرکے آپ نے ان پر نظر اندازی کی،جب آپ کسی حسین پر نظر انداز ہوئے تو اللہ تعالی کے حکم سے آپ نے نظر اندازی کی۔امر الہی کو آپ نے نظر انداز کردیا۔
جس وقت شاہ محمود نے کہا تھا کہ ایک قیمتی موتی ہے کوئی اس کا توڑنے والا ہے؟شاہ محمود نے حکم دیا کہ اس موتی کو توڑدو۔سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ اتنا قیمتی موتی کسی ملک میں نہیں ہے، لہذا ہم اسے نہیں توڑیں گے اور اگر ہم توڑیں گے تو بعد میں بادشاہ سزا دے گا کہ میں تو تم لوگوں کا امتحان لے رہاتھا ،تم نے موتی کیوں توڑدیا ۔لہذا شاہ محمود کے حکم شاہی کے باوجود سب وزیروں نے توڑنے سے انکار کردیا کہ بہت قیمتی موتی ہے۔محمود کا ایک عاشق غلام تھا جس کا نام” ایاز“ تھا۔اس نے ایاز کو حکم دیا کہ ایاز اس موتی کو توڑ دو تو اس نے فوراً پتھر اٹھایا اور موتی توڑ دیا۔جب اس نے موتی توڑا تو پینسٹھ وزیروں نے شورمچادیا: ایں چہ گستاخ است واللہ کافر است یہ ایاز گستاخ ہے کافر ہے کہ اتنا قیمتی موتی توڑدیا۔اس وقت شاہ نے کہا اے ایاز تم کو یہ لوگ کافر اور گستاخ بتا رہے ہیں ،ان کو جواب دو کہ تم نے اس موتی کو کیوں توڑا ۔تو ایاز نے جواب دیا۔
گفت ایاز اے مہتران نامور
ایاز نے کہا اے محترم وزیرو!میں نے موتی کیوں توڑا اور تم نے کیوں نہیں توڑا۔ تو میں آپ لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ تب میرے عمل کا راز ظاہر ہوگا۔یہ بتائیے
امر شہ بہتر بہ قیمت یاگہر
شاہ کا حکم زیادہ قیمتی ہے یا موتی؟آہ سوچ لو اس کو!جو موتی سڑکوں پر پھر رہے ہیں وہ زیادہ قیمتی ہیں یا اللہ کا حکم!واللہ کہتا ہوں کہ کسی اللہ والے کی غلامی کرو تب پتہ چلے گا کہ دین کیا چیز ہے ورنہ تفسیریں پڑھانے والے عورتوں کو پڑھا رہے ہیں۔آپ بتائیے کہ اگر یہی ظالم کسی اللہ والے کی جوتیاں اٹھاتے تو کبھی عورتوں کو نہ پڑھاتے ،انکار کردیتےکہ ہم پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے لیکن ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جوان لڑکیوں کو دیکھتے ہوئے غض بصر کی تفسیر پڑھائیں۔مگر کوئی اس وقت تک پیٹ پر پتھر نہیں باندھ سکتا جب تک کہ اس کے دل میں نسبت کا موتی نہ ہو یعنی صاحب نسبت نہ ہو۔جب اللہ کی نسبت عطاء ہوگی تب چھوٹی دولت سے انحراف کرے گا،نسبت مع اللہ کی دولت بڑی دولت ہے۔جب بڑی دولت ہوتی ہے تو چھوٹی دولت سے انحراف کرسکتا ہے،بڑی نعمت کو دیکھ کر چھوٹی نعمت کو چھوڑ سکتا ہے، اللہ کو دیکھ کر آخرت کی نعمت کے سامنے دنیا چھوڑ سکتا ہے۔بتائیے ایاز کے واقعہ سے سبق لینا چاہیے یا نہیں؟اس نے کتنا پیارا سوال کیا جب ان لوگوں نے کہا کہ شاہ کا موتی نایاب تھا اور خزانہ میں اس کا بدل نہیں تھا تم نے اسے کیوں توڑا؟تو ایاز نے جوجواب دیا وہ ہم سب کے لیے سبق ہے یا نہیں؟اس کے جواب میں تصوف کی روح ہے ۔لہذا اس سبق کو یاد کرلو۔
گفت ایاز اے مہتران نامور امر شہ بہتر بہ قیمت یاگہر اے معزز وزیرو!شاہی حکم زیادہ قیمتی ہے یا یہ حسین اور قیمتی موتی؟یہ حسین زیادہ قیمتی ہیں یا اللہ کا حکم؟جب کسی حسین یا حسینہ پر نظر ڈالو تو چپل اپنے ساتھ رکھو اور کھوپڑی پر چپل مارو کہ کس بے دردی سے دیکھتے ہو،یہ اللہ کے ساتھ غداری ہے کہ نہیں؟اگر گناہ نہیں چھوڑتے تو حق تعالیٰ کی نعمتیں کیوں کھاتے ہو؟سب نعمتوں کو چھوڑ دو ،اگر گناہ نہیں چھوڑرہے ہیں تو ہمارا یہ کھانا شریفانہ کھانا نہیں ،بے حیائی کا کھانا ہے۔
Add comment